صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں



ریڈیو کہانی

عارفہ شمسہ
جمع و ترتیب: اعجاز عبید


ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

چھوٹی آپا۔۔اقتباس

اللہ رکھے ہم تین بہنیں   ہیں ، ہماری بڑی بہن بشریٰ قمر کو آپا کہا جا نے لگا تو اسی نسبت سے منجھلی ہونے کے ناتے ہماری دوسری بہن عارفہ نجمہ چھو ٹی آپا کہلانے لگیں ،چھوٹی آپا بچپن سے ابا کی لاڈلی تھیں ،اماں   کا خیال تھا کہ ابا کے بے جا لاڈ پیار نے انہیں   خراب کر دیا اور کچھ نہیں   توہر وقت بیماری کا بہانہ۔ بات بات پر گھبرانا، کبھی نبض پکڑے ہیں   تو کبھی زکام ہو رہا ہے۔ پاکستان بننے کا زمانہ تھا ہر طرف خون ریزی، اکلوتے بھائی کی سیاسی سرگرمیوں   کی وجہ سے ہمارا گھر بھی متاثر تھا۔ اکلوتے بھائی عرفان الحق شبلی،پاکستان بنانے کے جنون میں   جیل میں   تھے،لیکن ابا کے گھر آتے ہی ہماری چھوٹی آپا کے نخرے شروع ہو جاتے،شاید یہ ہی وجہ تھی کہ ہماری چھوٹی آپا کی خاطر ابا نے مستقبل میں   اماں   کی مخالفت کے باوجود خاندانی رسم و رواج قسم کی ہر زنجیر کو توڑ دیا۔

پاکستان آنے کے بعد گھر میں   زیادہ تر اعلیٰ عہدوں   پر فائز اور تقریباً تمام نامور شخصیات ابا کے پاس آتی تھیں ۔ ایک دن جب ذوالفقار علی بخاری اور شاہد چچا (شاہد احمد دہلوی ) ابا سے ملنے گھر آئے تو اس وقت ابا روزانہ کی طرح چھوٹی آپا کو مسدس حالی یاد کرا رہے تھے۔ وہ ترنم سے یاد کر رہی تھیں ۔ بخاری صاحب آ کر بیٹھ گئے۔ چھوٹی آپا چائے لائیں   تو بخاری صاحب نے ان سے فرمائش کی کہ ہم کو بھی سناؤ۔ ابا نے اپنی چہیتی بیٹی کی طرف دیکھا۔ ابا کی بے حد لاڈلی بیٹی تو تھیں   ہی جلدی سے ان کی فرمائش پر چھو ٹی آپا نے مسدس حالی کا کوئی بند سنایا۔ بخاری صاحب تو جیسے فریفتہ ہو گئے اور ابا کے پیچھے پڑ گئے کہ میں   اسے اپنے ساتھ ریڈیو اسٹیشن لے جاؤں   گا۔ ا با نے بہت انکار کیا مگر بخاری صاحب باز نہ آئے اور شاہد چچا جن کو وہ ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ کر چکے تھے، وہ بھی ابا کو سمجھانے لگے کہ آپ فکر نہ کریں   بخاری صاحب اور میں   یقین دلاتے ہیں   نجمہ ہم لوگوں   کی نگرانی میں   رہے گی، چونکہ شاہد چچا ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام کے انچارج تھے۔ یہ کم ہی لوگ جانتے ہوں   گے کہ شاہد احمد دہلوی، ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے کلاسیکی موسیقی پر کمال رکھتے تھے۔ بخاری صاحب نے بتایا کہ تنویر جہاں   اور کوکب جہاں   گور گانی جن کا تعلق تیموریہ مغلیہ خاندان سے ہے اور ہماری رشتہ دار بھی ہیں ، میں   ان کو بھی ریڈیو پر موسیقی کے پروگراموں   میں   لے آیا ہوں ۔ اس طرح ریڈیو کا ماحول صاف ستھرا رہے گا اور وہاں   اچھے گھرانے کی لڑکیاں   بے دھڑک انشاء اللہ آیا کریں   گی۔ انھوں   نے ابا کو یقین دلایا کہ میں   سب کو بتاؤں   گا کہ یہ میری بیٹی ہے۔ سب کی ضد کے آگے آخر کار ابا نے ہتھیار ڈال دیے اور ہماری چھوٹی آپا عارفہ نجمہ سے نجم آراء بن گئیں ۔

اس زمانہ میں   طاہر شاہ مو سیقی کے پروگرام کے انچارج تھے۔ ان سے تاکید کی گئی تھی کہ نجمہ کا خیال اس طرح رکھا جائے جیسے یہ میری بیٹی ہے۔ سب مذاق اُڑاتے کہ نجمہ کے لیے کراچی ریڈیو پر ریڈ  کارپٹ بچھانے کے آرڈر ہیں   اس وقت ایک پروگرام’’سنی ہوئی دھنیں  ‘‘ مہدی ظہیر کیا کرتے تھے۔ اس میں   فلمی گانوں   کی نقلیں   گوائی جاتی تھیں ۔ اس پروگرام کے ذریعہ ایک دم چھو ٹی آپا کی آواز کی دھوم صرف کراچی ہی میں   نہیں   بلکہ پورے پاکستان میں   مچ گئی، سر اور تال کی آشنائی کے لیے ریڈیو سے باضابطہ اتوار کی صبح ایک خاص پروگرام سرگم کے نام سے شاہد چچا نے شروع کیا گیا۔ جس میں   شاگرد ایک نجم آراء اور دوسرے بلند اقبال جو استادبندو خان کے بیٹے اور استاد امراؤ خان کے بھائی بنتے تھے یہ پروگرام بہت مقبول ہوا۔ ہم اپنی بہن کے ساتھ چپک کر جاتے سب نے ہمارا نام پخ رکھ دیا۔ اس وقت ہم کو پخ کا مطلب بھی معلوم نہ تھا۔ ناصر جہاں   پروڈیوسر تھے اور موسیقی کے پروگرام کرتے تھے بعد میں   شمس الدین بٹ جن کو براڈکاسٹنگ کی دنیا کا معتبر نام تصور کیا جاتا ہے۔ گیتوں   بھری کہانیوں   میں   کافی گیت گوائے،سلیم گیلانی نے سینٹرل پروڈکشن یونٹ میں   امتیاز احمد کی پروڈکشن میں   شادی بیاہ کے گیت اور امیر خسرو کا کلام ریکارڈ کرایا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول