صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
رنگ برنگ طلسم
رفیق سندیلوی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا
گُلِ اِنفصال پذیر ہوں
مَیں نے تیری شاخ سے ٹوٹ کر
کسی اور باغ کا رُخ کیا
تو کھُلا کہ خو شبو جو مجھ میں تھی
بڑے خاص طرز و حساب کی
کسی آبِ جذب میں تیرتے ہوئے خواب کی
مرے رنگ و روغنِ جسم میں
جو عمیق نوع کا درد تھا
مَیں کہیں کہیں سے جو سُرخ تھا
مَیں کہیں کہیں سے جو زرد تھا
مرے زرد و سُرخ کے درمیاں
وہ جو اِک حرارتِ لمس تھی
وہ فنا ہوئی
!مری پتّی پتّی بکھر گئی
وہ دھُندَلکا تھا کسی صبح کا یا کہ شام کا
مَیں پڑا تھا خشک زمین پر
تری شاخِ سبز کے دھیان میں
کہ عجیب واقعہ ہو گیا اُسی آن میں
مری پتّی پتّی جو اِنقطاع کے دُکھ میں تھی
وہ ہوائے غیب کے زور سے
اُسی ضبط و بست میں آ گئی
وُہی ضبط و بست جو مجھ میں تھا
وُہی کیفِ ہست جو مجھ میں تھا
مَیں دوبارہ جمع ہوا تو پھر
تری شاخِ تَر کی طرف اُڑا
عجب اِک نشاطِ مراجعت مرے دِل میں تھی
مرے زرد و سُرخ کے درمیان کے تِل میں تھی
یہ خیال تھا
فقط ایک دِن کی مَسافرت پہ تو وصل ہے
مری اصل ہے
مگر اب کے بیچ کا فاصلہ
کئی نوری سال میں طے ہوا
وہاں پہنچا، دیکھا تو اُس جگہ
تری شاخ تھی نہ ہی باغ تھا
وہ جو تھی نشاطِ مراجعت
وہ جو اِنسِلاک کی تھی خوشی
وہ فنا ہوئی
مری پتّی پتّی جو جُڑ گئی تھی
! پھر ایک بار بکھر گئی
وہ دھُندَلکا تھا کسی صبح کا یا کہ شام کا
مَیں اُسی طرح ہی پڑا تھا خشک زمین پر
تری شاخِ تَر، تری شاخِ سبز کے دھیان میں
کہ عجیب واقعہ ہو گیا اُسی آن میں
مری پتّی پتّی
جو اِنقطاع کے دُہرے غم میں نڈھال تھی
وہ ہوائے غیب کے زور سے
پھر اُسی طرح ہی کے ضبط و بست میں آ گئی
وُ ہی ضبط و بست جو مجھ میں تھا
وُ ہی کیفِ ہست جو مجھ میں تھا
مگر اَب کے یک جا ہوا تو مَیں
کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا
وہیں اَپنے روغنِ حُسن میں
وہیں اَپنے حجلۂ رنگ میں
وہیں اَپنے مرکزِ درد میں
وہیں اَپنے سُرخ میں، زرد میں
وہیں اَپنے مُشکِ وُجود ہی میں پڑا رہا
کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا
٭٭٭