صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


قرآن کا قانون عروج و زوال

مولانا ابو الکلام آزاد

ڈاؤن لوڈ کریں 

        ورڈ فائل                                                        ٹیکسٹ فائل

حقیقت اسلام

سب سے پہلے اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ اسلام کی وہ کون سی حقیقت تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پر طاری ہوئی  اور  جس کو قرآن حکیم نے امت مرحومہ کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا۔

اسلام کا مادہ سلم ہے جو باختلاف حرکات مختلف اشکال میں آ کر مختلف معنی پیدا کرتا ہے۔ لیکن لغت کہتی ہے کہ"سلم"بفتحتین  اور  اسلام کے معنی کسی چیزکوسونپ دینے، اطاعت و  انقیاد  اور  گردن جھکا دینے کے ہیں۔ اس سے تسلیم بمعنی سونپ دینے کے  اور  استلم(ای انقادواطاع)،آتا ہے  اور  فی الحقیقت،لفظ اسلام،بھی انہی معنی  پر مشتمل ہے۔ قرآن کریم میں ان معانی کے شواہداس کثرت سے ملتے ہیں کہ ایک مختصر مضمون میں سب کا استقصاء ممکن نہیں۔ تاہم ایک دو آیتوں پر نظر ڈالیے تو یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے مثلاً احکام طلاق کی آیات میں ایک موقعہ پر فرمایا۔

وان اردتم ان تسترضعوا اولادکم فلاجناح علیکم اذا سلمتم ما آتیتم بالعروف(233:2)

اگر تم چاہو کہ اپنے بچے کوکسی دایاسے دودھ پلواؤتواس میں بھی تم پر کچھ گناہ نہیں۔ بشرطیکہ دستورکے مطابق ان کی ماؤں کو جو دینا کیا  تھا وہ ان کے حوالے کر دو۔

اس آیت میں "سلمتم"حوالہ کر دینے کے معنی میں صاف ہے۔ اس طرح بمعنی اطاعت و انقیاد یعنی گردن نہادن کے معنی میں فرمایا ہے۔

ولہ اسلم من فی السموت والارض طوعاوکرھا(83:3)

اس آسمان و زمین میں کوئی نہیں جو چار و ناچار دین الٰہی کا حکم بردار  اور  مطیع و منقاد نہ ہو۔

قالت الاعراب امناقل لم تومنوولکن قولوآ اسلمنا(14:49)

 اور  یہ  جو عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے تو ان سے کہہ دوکہ تم ابھی ایمان نہیں لائے۔

کیونکہ وہ دل کے اعتقاد کامل کا نام ہے جو تمہیں نصیب نہیں۔ البتہ یوں کہو کہ ہم نے اس دین کو مان لیا۔ہر شے کی اصل حقیقت وہی ہوسکتی ہے جواس کے نام کے اندر موجود ہو۔دین الٰہی کی حقیقت لفظ اسلام کے معنی میں پوشیدہ ہے۔ لفظ اسلام کے معنی اطاعت،انقیاد،گردن نہادن  اور  کسی چیز کے حوالہ کر دینے کے ہیں۔ پس اسلام کی حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان اپنے پاس جو کچھ رکھتا ہے، خدا تعالیٰ کے حوالے کر دے۔ اس کی تمام قوتیں،اس کی تمام خواہشیں، اس کے تمام جذبات، اس کی تمام محبوبات غرضیکہ سرکے بالوں سے لے پاؤں کے انگوٹھے تک جو کچھ اس کے اندر ہے  اور  جو کچھ اپنے سے باہر رکھتا ہے، سب کچھ۔۔۔۔ایک لینے والے کے سپرد کر دے۔  اور  اپنے قوائے جسمانی و دماغی کے ساتھ خدا کے آگے جھک جائے  اور  ایک مرتبہ ہر طرف سے منقطع ہو کر  اور  اپنے تمام رشتوں کوتوڑکراس طرح گردن رکھ دے کہ پھر کبھی نہ اٹھے۔ نفس کی حکومت سے باغی ہو جائے  اور  احکام الٰہی کا مطیع و منقاد۔یہی وہ حقیقت اسلامی کا قانون فطری ہے جو تمام کائنات عالم میں جاری وساری ہے۔ اس کی سلطنت سے زمین وآسمان کا ایک ذرہ بھی باہر نہیں۔ ہر شے جواس حیات کدہ عالم میں وجود رکھتی ہے اپنے اعمال طبعی کے اندراس حقیقت اسلامی کی ایک مجسم شہادت ہے۔ کون ہے جواس کی اطاعت وانقیادسے آزاد ہے  اور  اس کے سامنے سے اپنے جھکے ہوئے سرکواٹھاسکتا ہے۔ اس نے کہا میں کبیر المتعال ہوں۔ پھر کون سی ہستی ہے جواس کی کبریائی و جبروت کے آگے اپنے اندراسلامی انقیاد کی ایک صدائے عجز نہیں رکھتی۔زمین پر ہم چلتے ہیں  اور  آسمان کو ہم دیکھتے ہیں۔ لیکن کیا دونوں اس حقیقت اسلامی کی طرف داعی نہیں ہیں۔ زمین کو دیکھو جو اپنے گرد و غبار کے اندر ارواح نباتاتی کی ایک بہشت حیات ہے جس کے الوان جمال سے اس حیات کدہ اراضی کی ساری دل فریبی  اور  رونق ہے، جس کی غذا بخشی انسانی خون کے لیے سرچشمہ تولید ہے  اور  جو اپنے اندر،زندگیوں  اور  ہستیوں کا ایک خزانہ لازوال رکھتی ہے۔ کیا اس کی وسیع سطح حیات پرور پر ایک ایک ہستی بھی ہے جواس حقیقت اسلامی کے قانون عام سے مستثنی ہو؟کیا اس کی کائنات نباتاتی کا ایک ذرہ خدائے اسلام کے قائم کئے ہوئے حدود و قوانین کامسلم یعنی اطاعت شعار نہیں ہے۔

    بیج جب زمین کے سپرد کیا جاتا ہے تو وہ فوراً لے لیتی ہے کیوں کہ اس کے بنانے والے نے اس کوایساہی حکم دیا ہے۔ پھر اگر تم وقت سے پہلے واپس مانگو تو نہیں دے سکتی کیوں کہ اس کاسرخدا کے آگے جھکا ہوا ہے  اور  خدا نے ہر بات کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا ہے۔ ولکل اجل کتاب(38:13)پس محال ہے کہ کوئی شے اس کی خلاف ورزی کرے  اور  حقیقت اسلامی کے قانون عام کی مجرم ہو۔

    قانون الٰہی نے زمین کی قوت نامیہ کے ظہور کے لیے مختلف دور مقرر کر دیے ہیں  اور  ہر دور کے لیے وقت خاص لکھ دیا ہے۔ زمین کی درستگی کے بعداس میں بیج ڈالا جاتا ہے۔ آفتاب کی تمازت اس کو حرارت پہنچاتی ہے۔ پانی کابمقدارمناسب حصول اس کی نشو و نما کو زندگی کی تازگی بخشتا ہے۔ یہ تمام چیزیں ایک خاص تسویہ وتناسب کے ساتھ اس کو مطلوب ہیں۔ پھر بیج کے گلنے  اور  سڑنے، مٹی کے اجزائے نباتاتی کی آمیزش،کونپلوں کے پھوٹنے، ان کے بتدریج بلند ہونے  اور  اس کے بعد شاخوں کے انشعاب  اور  پتوں  اور  پھولوں کی تولید وغیرہ۔ان تمام مرحلوں سے اس بیج کا درجہ بدرجہ گذرنا ضروری ہے  اور  ہر زمانے کے لیے ایک حالت  اور  مدت مقرر کر دی گئی ہے۔ یہی تمام مختلف مراحل و منازل زمین کی پیداوار کے لیے ایک شریعت الہیہ ہیں جس کی اطاعت کائنات نباتات کی ہر روح  پر فرض کر دی گئی ہے۔ پھر کیا ممکن ہے کہ زمین ایک لمحہ ایک منٹ کے لیے  اور  ایک مستثنے مثال میں بھی اس شریعت کے مسلم ہونے یعنی اس کی اطاعت سے انکار کر دے  اور  پھراگراس کی خلاف ورزی کی جائے تو کیا ممکن ہے کہ ایک دانہ بھی بار  اور   اور  ایک پھول بھی شگفتہ ہو۔

    ایک درخت ہے جو پانچ سال کے اندر پھل لاتا ہے۔ پھر تم کتنی ہی کوشش کرو۔وہ پانچ ماہ کے اندر کبھی پھل نہیں دے گا۔ایک پھول ہے جس کے پودے کو زیادہ مقدار میں حرارت مطلوب ہے پھر یہ محال ہے کہ وہ سائے میں زندہ رہ سکے۔ کیوں !اس لیے کہ پانچ سال کے اندراس کا حد بلوغ کو پہنچنا  اور  دھوپ کی تیزی میں اس کا نشو و نما پانا۔شریعت الٰہی نے مقرر کر دیا ہے۔ پس وہ مسلم ہے  اور  حقیقت اسلامی کا قانون عام اس کوسرکشی و خلاف ورزی کاسراٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔

ولہ من فی السموت والارض کل لہ قنتون(26:30)

 اور  جو کچھ آسمان میں ہے  اور  جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے  اور  سب اس کے حکم کے تابع  اور  منقاد ہیں۔

پس فی الحقیقت زمین کے عالم نظم و تدبیر میں جو کچھ ہے حقیقت اسلامی کا ظہور ہے۔

وفی الارض ایت للموقنین(20:51)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

        ورڈ فائل                                                        ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول