صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
قرآن، نہج البلاغہ کے آئینہ میں
آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
مترجم:ہادی حسن فیضی ہندی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
قرآن کا بولنا
حضرت
امام علیؑ نہج البلاغہ میں ایک طرف قرآن کے اوصاف کے متعلق ارشاد
فرماتے ہیں کہ: یہ کتاب، کتاب ناطق ہے، خود بولتی ہے، بولنے سے تھکتی نہیں
، اپنی بات اور اپنا مطلب خود واضح طور سے بیان کرتی ہے۔اور دوسری طرف،
ارشاد فرماتے ہیں : یہ قرآن ناطق نہیں ہے، اسے قوت نطق و گویائی دینی
چاہئے اور میں ہی ہوں جو اس قرآن کو تمھارے لئے گویا کرتا
ہوں۔ اور بعض عبارتوں میں اس طرح آیا ہے : ''قرآن، صَامِتٌ
نَاطِقٌ''١؎ قرآن صامت بھی ہے اور ناطق بھی۔ اس بات کے صحیح معنی
کیا ہیں ؟
معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعبیر اس آسمانی کتاب سے متعلق دو
مختلف نظریوں کو بیان کر رہی ہے کہ ایک نظر یہ کی رو سے قرآن ایک مقدس
کتاب ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک گوشہ میں رکھی ہوئی ہے، نہ وہ کسی سے
بولتی ہے اور نہ کوئی اس سے ارتباط رکھتا ہے، اور دوسرے نظریہ کے لحاظ سے
قرآن ایک گویا (بولنے والی) کتاب ہے جس نے تمام انسانوں کو اپنا مخاطب
قرار دیا ہے اور ان کو اپنی پیروی کی دعوت دی ہے اور اپنے پیروؤں کو سعادت
و نیک بختی کی خوشخبری دی ہے۔
واضح ہے کہ وہ قرآن جس کی صفت صرف تقدس
ہو اور بس، جس کی آیتیں صرف کاغذ کے صفحوں پر نقش ہوں اور مسلمان اس کا
احترام کرتے ہوں ، اس کو چومتے ہوں اور اس کو اپنے گھر کی بہترین جگہ پر
محفوظ رکھتے ہوں اور کبھی کبھی محافل و مجالس میں اس کی حقیقت اور اس کے
معانی کی طرف توجہ کئے بغیر اس کی تلاوت کرتے ہوں۔ اگر اس نگاہ سے
قرآن کو دیکھیں تو قرآن ایک صامت (خاموش) کتاب ہے جو کہ محسوس آواز کے
ساتھ نہیں بولتی، جو شخص ایسا نظریہ قرآن کے متعلق رکھے گا وہ ہرگز قرآن
کی بات نہ سن سکے گا اور قرآن کریم اس کی مشکل کو حل نہیں کرے گا۔
اس
بنا پر ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دوسرے نظریئے کو اپنائیں ، یعنی قرآن کو
ضابطۂ حیات سمجھیں ، اور خدائے متعال کے سامنے اپنے اندر تسلیم و رضا کی
روح پیدا کر کے خود کو قرآن کریم کی باتیں سننے کے لئے آمادہ کریں کہ قرآن
کی باتیں زندگی کا دستور ہیں اسی صورت میں قرآن، ناطق اور گویا ہے،
انسانوں سے بات کرتا ہے اور تمام شعبوں میں ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
اس
توضیح کے علاوہ جو کہ ہم نے قرآن کے صامت و ناطق ہونے کے متعلق بیان کی
ہے، اس کے اس سے بھی زیادہ عمیق معنی پائے جاتے ہیں اور وہی معنی حضرت
علیؑ کے مد نظر تھے اور ان ہی معنی کی بنیاد پر آپ نے فرمایا ہے کہ
قرآن صامت ہے اور اسے ناطق و گویا کرنا چاہئے اور یہ میں ہوں جو کہ قرآن
کو تمھارے لئے گویا کرتا ہوں۔
اب ہم قرآن کے صامت و ناطق ہونے کی توضیح دوسرے معنی کے اعتبار سے (یعنی حقیقت میں اس کے حقیقی معنی کی توضیح) پیش کر رہے ہیں :
اگرچہ
قرآن کریم خداوند متعال کا کلام ہے اور اس کلام الٰہی کی حقیقت اور اس کے
صادر اور نازل ہونے کا طریقہ ہمارے لئے قابل شناخت نہیں ہے، لیکن اس وجہ
سے کہ اس کے نزول کا مقصد انسانوں کی ہدایت ہے، اس کلام الٰہی نے اس قدر
تنزل کیا ہے کہ لفظوں ، جملوں اور آیتوں کی صورت میں انسان کے لئے پڑھنے
اور سننے کے قابل ہو گیا، لیکن اس کے باوجود ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی
تمام آیتوں کے مضامین عام انسانوں کے لئے سمجھنے اور دسترس میں رکھنے کے
قابل ہوں اور لوگ خود نبی اکرمؐ اور ائمۂ معصومین علیہم السلام (جو
کہ راسخون فی العلم ہیں ) کی تفسیر و توضیح کے بغیر آیتوں کے مقاصد تک
پہنچ سکیں۔
مثال کے طور پر شرعی احکام و مسائل کے جزئیات کی تفصیل
و توضیح قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے، اسی طرح قرآن کریم کی بہت سی آیتیں
مجمل ہیں اور توضیح کی محتاج ہیں۔ اس بنا پر قرآن بہت سی جہتوں سے
''صامت'' ہے، یعنی عام انسان اس کو ایسے شخص کی تفسیر و توضیح کے بغیر
نہیں سمجھ سکتے جو غیب سے ارتباط رکھتا ہے اور خدائی علوم سے آگاہ ہے۔
.........................................................
(١)نہج
البلاغہ، خطبہ ١٤٧، یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس کتاب میں نہج البلاغہ سے
دیئے گئے تمام حوالے، نہج البلاغہ فیض الاسلام کی بنیاد پر ہیں۔
٭٭٭