صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
قرآن فہمی
ڈاکٹر مرتضٰی مطھری
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
پہلی تقریر
سُوْرۃ اَنْزَلْنَا ھَا وَفَرَضْنَا ھَا وَاَنْزَلْنَا فِیْھَآ اٰیَاتٍمبِیّنَاتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔اَلزَّانِیَۃ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائیۃ جَلْدَۃ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَأفَۃ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُ مَا طَآئِفَۃ مِّنَ الْمُؤمِنِیْنَ اَلزَّانِیْ لاَیَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَۃ اَوْمُشْرِکَۃ وَّالزَّانِییۃ لاَ یَنْکِحُھَآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکُ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (سُورۂ نُور، آیت ۱ تا ۳)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے اس سورت میں واضح آیات نازل کی ہیں تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے اور تم بیدار و آگاہ ہو جاؤ۔ اس سورت کے آغاز میں یہ جو فرمایا جا رہا ہے: ’’یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے‘‘ تو قرآن مجید میں فقط یہی ایک سورت ہے جس کا آغاز اس آیت سے ہوا ہے جبکہ دوسری بہت سی سورتوں کا آغاز اس آیت ’’ہم نے کتاب نازل کی‘‘ سے ہوا ہے۔ یعنی ان آیات میں تمام قرآن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت میں بیان کردہ مفاہیم و مطالب کی جانب خدا کی خصوصی توجہ ہے۔ آپ سورت کے معنی کو جانتے ہیں۔ قرآنی آیات کا وہ مجموعہ جو ایک ’’بسم اللہ‘‘ سے شروع ہو کر دوسری ’’بسم اللہ‘‘ سے پہلے ختم ہو جاتا ہے، اسے سورت کہتے ہیں۔ قرآن کا شمار ان کتابوں میں ہوتا ہے جن میں فصل، باب اور حصے نہیں ہوتے۔ قرآن کو مختلف سورتوں کے اعتبار سے ہی تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر سورت کا آغاز ایک ’’بسم اللہ‘‘ سے ہوتا ہے اور بعد والے مجموعہ کے آغاز میں جو بسم اللہ ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ پہلی صورت ختم ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ لفظ ’’سورۃ‘‘ اس لفظ سے مشتق ہوا ہے جس سے لفظ ’’سور‘‘ مشتق ہوا ہے۔ شہروں کے گرد بنائی جانے والی فصیل جو شہروں کو گھیرے رہتی، وہ ایک دیوار کی صورت میں ہوتی اور پورے شہر یا قصبہ یا دیہات پر احاطہ کئے ہوئے ہوتی تھی۔ اسے عربی زبان میں ’’سور‘‘ کہا جاتا تھا۔ ’’سورہ البلد‘‘ ایک بلند دیوار ہوتی جسے کسی شہر کے گرد بناتے تھے۔ گویا ہر سورت ایک حصار کے اندر واقع ہے۔ اسی لئے اسے سورہ کہا جاتا ہے۔ پیغمبرِ اکرم نے بنفس نفیس قرآن کو سورتوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ آپ کے بعد دوسرے مسلمانوں نے قرآن کو سورتوں میں تقسیم کیا ہو، بلکہ شروع سے ہی قرآن سورتوں کی صورت میں نازل ہوا۔
اس سورت کی پہلی آیت خصوصاً سورۃ انزلنا ھا‘‘ اور ا س کے بعد کے الفاظ ’’فرضناھا‘‘ اس مطلب کو ادا کر رہے ہیں کہ عفت و پاکدامنی سے متعلق مسائل بہت اہمیت کے حامل ہیں، یعنی دورِ حاضر کے انسان کی سوچ کے بالکل برعکس جو جنسی تعلقات کو سہل و آسان بنانے اور انہیں کم اہمیت شمار کرنے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اس نے غلط طور پر اس کا نام آزادی رکھا ہوا ہے اور وہ اپنی اصطلاح میں ’’جنسی آزادی‘‘ کی جانب گامزن ہے۔ قرآن پاکدامنی کے حریموں، بے عفتی کی سزاؤں کے عنوان سے جو مسائل بیان کرتا ہے اور جو کچھ وہ ایسی پاکدامن عورتوں کے دامن کو داغدار کرنے کی سزاؤں کے عنوان سے بیان کرتا ہے جن پر ناروا تہمتیں لگائی گئی ہوں اور جو احکام وہ شادی کرنے کی ترغیب دینے کے باب میں بیان کرتا ہے، الغرض پاکدامنی سے مربوط مسائل کے بارے میں اسلام جو کچھ بیان کرتا ہے تو وہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ مسائل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ مسائل بہت ضروری ہیں۔ انہیں کم اہم نہیں سمجھنا چاہئے جبکہ عصرِ حاضر کی آفتوں میں سے ایک آفت یہی ہے کہ پاکدامنی کے اصول اور جنسی امور میں تقویٰ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔
’’سُوْرَۃ اَنْزَلْنَا ھَا‘‘ یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور اس میں بیان شدہ احکام کی مراعات کو واجب قرار دیا ہے، یعنی ہم ان کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ انہیں کم اہم نہیں سمجھتے۔ ’’وَاَنْزَلْنَا فِیھَآ اٰیَاتٍ مبیِّنَاتٍ‘‘ اور ہم نے اس سورت میں واضح آیات نازل کی ہیں۔ اس آیت میں جو لفظ ’’آیات‘‘ آیا ہے تو ممکن ہے اس سے سورہ نور کی تمام آیات مراد ہوں، یا جیسا کہ علامہ طباطبائی نے تفسیرالمیزان میں تحریر کیا ہے، ان سے مراد وہ آیات ہیں جو اس سورت کے وسط میں واقع ہیں اور حقیقت میں یہ آیات اس سورہ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس سورت کی دوسری آیات جنسی آداب و اخلاق کے متعلق ہیں جبکہ وہ آیات اصولِ عقائد کے متعلق ہیں۔ ہم ان کے درمیان پائی جانے والی مناسبت کو بعد میں بیان کریں گے۔ بہرحال قرآن کہتا ہے کہ ہم نے اس سورت کو نازل کیا ہے اور اس میں بیان کردہ احکام جو کہ جنسی اخلاق و آداب کے متعلق ہیں، لازم قرار دیئے ہیں۔
انسان کی آگاہی و بیداری کی خاطر ہم نے اس میں واضح آیات نازل کی ہیں، ’’لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘‘ تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے۔ تم آگاہی حاصل کرو اور غفلت سے نکل جاؤ۔
شاید آپ جانتے ہوں کہ تفکر اور تذکر کے مابین فرق ہے۔ تفکر اس جگہ ہوتا ہے جہاں انسان کسی مسئلے کو بالکل ہی نہ جانتا ہو، اسے سرے سے ہی نہ جانتا ہو اور وہ مسئلہ اسے سمجھا دیا جائے۔ قرآن نے متعدد مقامات پر تفکر کی بات کی ہے۔ تذکر ان مسائل میں ہے جن مسائل کے صحیح ہونے کو انسان کی فطرت جانتی ہو لیکن اسے یاد اور توجہ دلانے کی ضرورت ہو۔ قرآن کو خصوصاً ’’تذکر‘‘ کے عنوان سے بیان کرتا ہے۔ شاید اس سے انسان کا احترام مقصود ہے۔ ہم تمہیں ان مسائل کی جانب متوجہ کرتے ہیں، یعنی یہ ایسے مسائل ہیں کہ اگر آپ خود بھی غور کریں تو انہیں سمجھ لیں گے۔ لیکن ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں اور ان کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
بعد والی آیت فحشاء یعنی زنا کی سزا سے متعلق ہے۔ خدا کا فرمان ہے۔
اَلزَّانِیَۃ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃ جَلْدَۃ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِھِمَارَاْفَۃ فِیْ دِیْنِ اللّہَِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفۃ مِّنَ الْمُؤمِنِیْنَ۔‘‘ (سُورۂ نُور، آیت ۲)
ان آیات میں تین مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ جو بھی زنا کرے، خواہ مرد ہو خواہ عورت، اسے سزا ملے گی اور اس کی سزا قرآن نے ’’ایک سو کوڑے‘‘ معین کر دی ہے۔ سو کوڑے زانی مرد اور سو کوڑے زنا کرنے والی عورت کو مارے جانے چاہئیں۔
دوم یہ کہ مومنین کو آگاہ کر رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سزا کے وقت تم پر احساسات غالب آ جایں۔ مباوا تمہیں ان پر رحم آئے اور تم کہو کہ سو کوڑے لگنے سے انہیں تکلیف پہنچے گی، لہٰذا انہیں پوری سزا نہ دی جائے۔ کیونکہ یہ ترس کھانے کا مقام نہیں ہے قرآن کہتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر جذبات غالب آ جائیں اور تم اللہ کی اس حد کو جاری کرنے میں سستی سے کام لینے لگو۔ عصرِ حاضر کی اصطلاح کے مطابق تم یہ نہ سمجھو کہ یہ ایک ’’غیرانسانی‘‘ کام ہے۔ نہیں، بلکہ یہ ایک ’’انسانی‘‘ عمل ہے۔
سوم یہ کہ سزا مخفیانہ طور پر نہ دی جائے کیونکہ اس سزا کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے لوگ عبرت پکڑیں۔ مومنین کا ایک گروہ سزا کے وقت لازمی طور پر حاضر و ناظر ہونا چاہئے جو اسے دیکھے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ جب اس حکم کو نافذ کیا جائے تو اسے اس طور پر نافذ کرنا چاہئے کہ تمام لوگوں کو پتہ چل جائے کہ فلاں عورت یا فلاں مرد پر زنا کی حد جاری ہوئی ہے۔ اس حکم کو مخفی طور پر نہیں بلکہ اعلانیہ طور پر نافذ کرنا چاہئے۔
اب ہم پہلے مطلب کے متعلق چند باتیں بیان کرتے ہیں جو زنا کی سزا کے حکم کے بارے میں ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ زنا کی سزا کی وجہ کیا ہے؟ اگر آپ ان کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں اس موضوع کے متعلق بحث کی گئی ہے تو آپ دیکھیں گے گے کہ وہ لوگ یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ زنا کی سزا دینے کی وجہ… ان کی اصطلاح میں…’’مرد کی حکمرانی‘‘ ہے۔
جن زمانوں میں مرد کو خاندان کا حاکم سمجھا جاتا رہا، یعنی مرد گھر کا مالک ہوتا جبکہ عورت کو کوئی حق حاصل نہ ہوتا۔ وہ مرد کے پاس بہرہ برداری کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی۔ مرد اپنے آپ کو بیوی کا مالک جانتا تھا۔ جب کوئی عورت زنا کرتی تو اس کا شوہر یہ سمجھتا کہ اس نے ایک ایسی چیز دوسرے مرد کی تحویل میں دی ہے جو اس کا حق تھا۔ پس اس بناء پر زنا کی سزا برقرار ہوئی۔ واضح سی بات ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے یہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے۔ اسلام میں زنا کی سزا عورت کے ساتھ مختص نہیں ہے، مرد کو بھی اپنے کئے کی سزا ملنی چاہئے اور عورت کو بھی۔ ’’اَلزَّانِیۃَ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃ جَلْدَۃ۔‘‘ صراحت کے ساتھ یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ زناکار مرد اور زناکار عورت دونوں کو سزا ملنی چاہئے۔ اگر مرد کو زنا سے نہ روکا گیا ہوتا اور فقط عورت کو روکا گیا ہوتا۔ شاید دنیا کے بعض علاقوں میں ایسے قوانین موجود تھے جن کی رو سے فقط عورت کو زنا کرنے کا حق حاصل نہیں تھا…تو اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ زنا کی سزا کی وجہ ’’مرد کی حکمرانی‘‘ ہے۔ لیکن اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو زنا سے منع کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنی نفسانی خواہشات کو فقط شادی کے ذریعے ہی پورا کر سکتا ہے۔ شادی نام ہے بعض فرائض کے ادائیگی کے پابند ہونے اور ذمہ داریوں کو سنبھالنے ک ۔ عورت بھی اپنی جنسی خواہش کو فقط شادی کے ذریعے ہی پورا کر سکتی ہے، البتہ بعض فرائض کی ادائیگی کی پابندی اور بعض ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ۔ پس مرد کو شادی کے بغیر اپنی جنسی جبلت کو پورا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، اور عورت کو بھی ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ بنا بریں زنا کے حرام ہونے کا مسئلہ عورت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ عورت اور مرد دونوں پر یکساں طور پر حرام ہے۔
اب یہاں ایک اور مسئلہ درپیش ہے، وہ یہ کہ آج کے یورپی معاشرے میں عورت اور مرد کو فقط اس وقت زنا سے منع کیا گیا ہے جب وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق ’’محصن‘‘ یا محصنہ‘‘ ہوں۔ یعنی شوہر والی عورت اور شادی شدہ مرد کو زنا کا حق نہیں پہنچتا۔ لیکن جس مرد کی بیوی نہ ہو یا جس عورت کا شوہر نہ ہو ان کے لئے زنا کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ جس مرد کی بیوی نہ ہو فطرتاً اسے شوہر والی عورت کے ساتھ زنا کرنے کا حق نہیں پہنچتا اور جس عورت کا شوہر نہ ہو اسے شادی شدہ مرد سے زنا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن جس عورت کا شوہر نہ ہو اور جس مرد کی بیوی نہ ہو ان کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس کے کیوں قائل ہیں؟ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شادی شدہ مرد کے لئے زنا حرام ہونے کا فلسفہ یہ ہے کہ اس نے اس فعل کے ذریعہ اپنی بیوی سے خیانت کی ہے اور اس کی حق تلفی کی ہے۔
اس لئے جس مرد کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی اس پر کسی عورت کا حق نہیں۔ اسی طرح جس عورت کا شوہر نہ ہو اس پر بھی کسی مرد کا حق نہیں ہے۔ اس لئے ان کے لئے زنا کرنا جائز ہے۔
لیکن اسلام نے اس حوالے سے دو باتیں کی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی عورت اور کسی مرد کو نکاح کے بغیر جنسی عمل انجام دینے کا حق حاصل نہیں ہے، چاہے مرد بیوی والا ہو یا نہ ہو، چاہے عورت شوہر والی ہو یا نہ ہو۔ اسلام خاندان کی اہمیت کا اس حد تک قائل ہے کہ وہ نکاح کے بغیر جنسی عمل انجام دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ فقط گھریلو زندگی کی صورت میں ہی جنسی خواہش کی تسکین کی اجازت دیتا ہے اور گھریلو زندگی تشکیل دیئے بغیر کسی صورت میں بھی عورت و مرد کو ایک دوسرے سے لذت اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
دوسری بات شادی شدہ عورت اور شادی شدہ مرد کی سزا سے متعلق ہے۔ اسلام اس مقام پر دو سزاؤں کا قائل ہے۔ اس کی سزا زیادہ شدید ہے۔ ایک کلی سزا یعنی سو کوڑے اور دوسری رجم یعنی سنگساری ہے۔
خاندان کی اساس اور خاندانی ماحول کو مستحکم کرنے والے عوامل میں سے ایک یہی مسئلہ ہے اور موجودہ یورپی دنیا میں گھریلو زندگی کی اساس متزلزل و کمزور ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں ہم اپنے معاشرے میں یورپین باشندوں کی جتنی زیادہ پیروی کریں گے اسی قدر ہماری گھریلو زندگی متزلزل ہو گی۔ ہمارا معاشرہ جب تک صحیح معنوں میں اسلام پر عمل کرتا رہا یعنی شادی سے قبل واقعتاً لڑکوں کے لڑکی یا عورت کے ساتھ تعلقات نہیں ہوا کرتے تھے۔ عصر حاضر کے یورپین لوگوں کی اصطلاح میں جب تک لڑکوں کی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہوا کرتی تھی اور لڑکیوں کے بوائے فرینڈز نہیں ہوا کرتے تھے، اس وقت شادی لڑکیوں اور لڑکوں کی ایک آرزو شمار ہوتی تھی۔ لڑکا جب پندرہ سال کا ہو جاتا ہے تو اسے شادی کرنے کا فطری احساس ہوتا اور لڑکی کے دل میں بھی شادی کی آرزو جنم لیتی۔ لڑکے کا شادی کی آرزو کرنا ایک فطری بات تھی کیونکہ وہ عورت سے لذت حاصل کرنے کی پابندی سے شادی کے ذریعہ ہی نجات حاصل کر کے عورت سے لذت حاصل کرنے کی آزادی پاتا تھا۔ اس وقت ’’شبِ زفاف کم از صبح پادشاہی نبود‘‘ یعنی سہاگ رات پادشاہت کی صبح سے کمتر نہیں تھی کیونکہ نفسیاتی طور پر لڑکے کو اس لذت سے ہمکنار کرنے والی سب سے پہلی عورت اس کی بیوی ہوتی تھی اور لڑکی کو بھی اس کا شوہر ہی پابندی سے نکال کر آزادی سے ہمکنار کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لڑکی اور لڑکا جنہوں نے شادی سے قبل ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ ہوتا اور دیکھنے کے بغیر آپس میں شادی کر لیتے وہ آپس میں بہت زیادہ محبت کرنے لگتے۔
(میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ شادی سے قبل ایک دوسرے کو نہ دیکھنا کوئی درست بات ہے۔ نہیں۔ اسلام نے دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر انہوں نے نہ بھی دیکھا ہوتا اور ان کو ایک دوسرے کا وصال نصیب ہوا تب بھی وہ مرتے دم تک آپس میں محبت کرتے تھے) ۔
لیکن یورپین تہذیب لڑکے کو اجازت دیتی ہے کہ جب تک کنوارا ہے تب تک وہ جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے اور لڑکی بھی جب تک کنواری ہے تب تک اسے جنسی تعلقات قائم کرنے کی آزادی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکا شادی کے بعد اپنے آپ کو پابند محسوس کرتا ہے اور لڑکی بھی محسوس کرتی ہے کہ وہ شادی کے بعد آزادی سے محروم ہو چکی ہے۔ شادی سے قبل اسے آزادی تھی۔ وہ جس سے چاہتی تعلقات قائم کر سکتی تھی۔ اب شادی کے بعد وہ فقط ایک مرد تک محدود ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی لڑکا شادی کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے: ’’میں نے آج سے اپنا ایک نگہبان مقرر کر لیا ہے‘‘۔ لڑکی کا شوہر اس کا چوکیدار بن جاتا ہے یعنی وہ آزادی سے پابندی کی جانب آتے ہیں۔
مغربی تہذیب میں آزاد کو پابند بنانے کا نام شادی ہے۔ شادی نام ہے آزادی سے پابندی کی جانب آنے کا۔ جبکہ اسلامی تہذیب میں شادی نام ہے پابندی سے آزادی کی جانب آنے کا۔ جس شادی کی بنیاد نفسیاتی طور پر پابندی سے نجات پا کر آزادی سے ہمکنار ہونے پر ہو وہ اپنے دامن میں استحکام لئے ہوتی ہے اور جس کی اساس آزادی سے پابندی کی جانب آنے پر استوار ہو اس میں استحکام نہیں ہوتا۔ یعنی جلدی ہی اس شادی کی نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جس لڑکے نے بیسیوں بلکہ سینکڑوں لڑکیوں کا تجربہ کیا ہو اور جس لڑکیوں نے بیسیوں اور سینکڑوں لڑکوں کا تجربہ کیا ہو تو کیا وہ لڑکی یا لڑکا کسی ایک کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے؟ کیا انہیں پابند کیا جا سکتا ہے؟ اس لئے اسلام میں زنا حرام ہونے کی وجہ فقط یہی نہیں کہ ہے کہ یہ صرف مرد کا حق ہے اور وہ فقط عورت کا حق ہے کہ آپ کہیں کہ غیر شادی شدہ مرد پر ابھی تک کسی عورت کا حق نہیں ہے اور کنواری لڑکی پر بھی کسی مرد کا حق نہیں ہے۔ لہٰذا جو آدمی مرتے دم تک شادی نہیں کرنا چاہتا وہ مطلق العنان ہو اور جو عورت عمر بھر شادی نہیں کرنا چاہتی وہ بھی مطلق العنان ہو۔ اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ یا تو سرے سے ہی لذت حاصل کرنے کا خیال دل سے نکال دو یا شادی کی ذمہ داریاں قبول کرو۔ اس لئے اسلام زنا کی سزا پر بہت زور دیتا ہے۔ اور جس زنا میں فقط زنا کا پہلو ہو اور اس کے علاوہ اس میں بیوی یا شوہر کے حقوق پائمال نہ ہوتے ہوں تو ایسا زنا کرنے پر بھی کوڑوں کی سزا دیتا ہے۔ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت جو طبعاً جنسی خواہش کے دباؤ کا شکار بھی نہیں ہوتے اور فقط ہوس بازی کی خاطر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں، اسلام ان کو بھی سنگسار کرنے کا حکم دیتا ہے۔
٭٭٭