صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


 محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات

 ڈاکٹر شکیل الرحمن

ڈاؤن لوڈ کریں 

 

صرف ورڈ فائل         

اقتباس

الاپے  گا گڑاگڑرا کماں  بہوں  کا چڑائی ہے

عشق کی آگ میں  ابرو کماں  کوشی سکاتی ہے


کہ گوری راگ جو گاوے  تو گوریاں  کا ملک جنتیوں

سو سارنگ نینی سب رنگ میں  سو رنگاں  سوں  سہاتی ہے

سبھی راگاں  کے  گل پھل ہار  بایا ہے  سو ملہارا

جو گاوے  رام کیری رام کر راواں  ریجھاتی ہے

*

جو بن حوض میں  تو رتن رنگ بھرے

بسنت راگ گاؤ سہایا بسنت

*

کرے  مشتری رقص مجسہ بزم میں  نت

برس گانٹھ میں  زہرہ کلیاں  گایا


راگ راگنیوں  کا تعلق ’وقت‘   اور  موسموں  سے  گہرا ہے، عورت ہر ’وقت‘   اور  ہر موسم میں  ایک نئی میلوڈی (MeLody)ہے۔

    ’جمالِ محبوب‘  محمد قلی قطب شاہ کا محبوب ترین موضوع ہے۔ جمالِ رُخ پر نظر جاتی ہے  تو نظر کے  ایسے  تجربے  اپنے  آہنگ کے  ساتھ متاثر کر نے  لگتے  ہیں:


چھبیلی ہے  صورت ہمارے  سجن کی

کیا پوُتلی اس کہوں  اپ نین کی

یہ دیکھیا نچھل کوئی اس سار صورت

سراؤں  کتے  زیب اپنے  موہن کی

چندا سا دیکھیا مکھ اس سرو قد پر

تو ہوتی ہے  شرمندہ پتلی گگن کی

ترا حسن پھل بن تھے  نازک ویسے  تو

نہ ویسے  تیرے  انگے  چھپ کوئی بن کی

نین تیرے  دو پھول نرگس تھے  زیبا

نزاکت ہے  تج مکھ میں  رنگین چمن کی

تیرے  زلفت پھنداں  میں  دل عاشقاں  کے

رہے  ہیں  سو عاشق ہو پیو کی نین کی

بنی صدقے  قطبا سوں  اوپیو لمیا ہے

تو کیا کہہ سکوں  بات اس مکھ سمن کی

(رُخِ زیبا)

     ’’مست شباب‘‘  (سورج تارے  دِپائی ہے  سندر چندر پشانی میں *مگر رستا ہے  عکس اس کا گگن سمد ور پانی میں ) ’’ادائے  حسن‘‘  (میں  اس نورسوں  بعد یا کیا عجب* در جگ روشنی پایا کس نئیں  خبر) ’’چنچل نین‘‘  (دو نین تج ابرو تیں  ہیں  نار کیرے  خواب میں * دوست شوقی سوں  سہتے  مسجد کیرے  محراب میں ) ’’ہلال بھوں‘‘  (  نس دن دُعا تھے  مو نظر پڑیا ہلال بھوں  اوپر*اس روشنی کے  سم نہ آوے  روشنی خورشید کا) ’’سروِ رواں‘‘  (سرو خوش قد دیکھیا سب سرو کے  بن میں  عجب*اس کے  سر کوئی نہیں  سب باغ و گلشن میں  عجب) ’’تصویر حسن‘‘  (پیاری ہے  نازک کلی جوں  چپنے  کی*تو ریشم تھے  آلے  ہیں  بالاں  کے  اُس کھب) ’’کندن کی پتلی‘‘  (نین ہیں  پیاری کے  جیسے  ممولے *بھنواں  کی ترازو سوں  بھو چھند تولے ) ’’سجن مکھ کا اُجالا‘‘  (سجن مکھ کا اوجالا چند تھے  آلا*اِدھر تھے  چودے  جم امرت پیالہ) وغیرہ ایسی نظمیں  ہیں  جو سلطان محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات کی سب سے  ممتاز جہت کو نمایاں  کرتی ہیں۔ جنسی حسیت بصری تجربوں  میں  کیا خوب ڈھلی ہے۔ ذکر صورت کا ہو یا زلف (الک، بال) کا، آنکھ (لوچن) کا ہو یا ابرو (بھنواں ) کا، ہونٹ (ادھر) کا ہو یا دانت (دسن) کا، کان (سرون) کا ہو یا پستان (کنج) یا سر پستان (کچ۔ کچوبن)  کا، چھاتی پر کسی چولی (کسنان) کا ہو یا آنکھوں  میں  کاجل (کجلی) کا محمد قلی قطب شاہ اپنے  جمالیاتی احساس  اور  سرمستی سے  قاری کے  احساسِ جمال پر حاوی ہو جاتے  ہیں۔ تشبیہوں  کے  خوبصورت نگینوں  سے  اشعار کو پرکشش بناتے  رہتے  ہیں۔ کماچ، منڈل، پکھاوج  اور  طنبورے۔۔۔  اور  بسنت راگ، دھناسری اس اور  ی، گوری، ملہار کلیان کا یہ عاشق اپنے  وجود کے  آہنگ کے  ساتھ رقص کرتا محسوس ہوتا ہے:


اُمنگاں  آپ اُمنگاں  سوں  اپس میں  آپ مل ناچیں

تنت کاتنن ناچیں  ہوئے  تن تن تنن سارا!

جمالِ محبوب عاشق کے  دِل میں  رقص کو جنم دیتا ہے، اس کا وجود رقاّص بن جاتا ہے۔ بات یہ ہے  کہ خود جمالِ محبوب میں  رقص  اور  تحرّک ہے، اس کا اثر عاشق کے  دل پر ہوتا ہے:

ہوئی تج نین پتلی دل میں  رقاّص

سدا منج نین کی منزل میں  رقاّص

تہیں  منج خواب سو بیداری میں  دٖیسے

جدھر دیکھوں  کھڑی تل تل میں  رقاّص

بھواں  کی طاق میں  سجدا کروں  میں

ہوئے  سائیں  مری محفل میں  رقاّص

رقص میں  جھوم جھوم جانے اور محبوب کی ہر ادا کو مست دیکھنے اور پورے  ماحول  اور  پوری فضا میں  مستی کی ایسی تصویریں  اُردو شاعری میں  نہیں  ملتیں۔ مدن مست، کجن مست، پری مست، پون مست، لگن مست، مکھا مست، کھپا مست، پھلا مست، کجل مست، لٹاں  مست، نین مست، دیکھن مست، ہنسن مست، چمن مست، چولی مست، کنول مست، بھنور مست، جھومے  جانے اور مستی کی ایسی تصویریں  کہاں  ملتی ہیں۔  محبت  اور  لذّتیت بت پرستی میں  تبدیل ہو گئی ہے:

مکھ تیرا دیکھ کر میں  آج مست

تیرے  مکھ کے  تئیں  ہوا ہوں  بت پرست

جمالِ محبوب کو دیکھ کر آسمان رقص کر نے  لگتا ہے:

تج حسن کیرے  دور میں  رقاص ہوئے  کر

کرتا ہے  رقص مستی سوں  پا کر گگن اَس

عورت کے  جسم کی لذّتوں  سے  آشنا شاعر وصل کے  موضوع پر بھی اظہارِ خیال کرتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی کلیات میں  وصل کے  تعلق سے  تین نظمیں  ہیں۔ ’نقشۂ وصال‘ ، ’عیشِ وصال‘   اور  ‘ بعد وصال‘ ۔ تینوں  رُومانی جمالیاتی حسی کیفیات لیے  ہوئی ہیں۔ شاعر جنسی لذّتوں  کے  لمحوں  کو ’عیش‘  کہتا ہے۔ عاشق کی آنکھیں  اس کے  وجود کی علامتیں  ہیں، آنکھیں  محبوب کے  حسن کو صرف دیکھنا ہی نہیں  بلکہ چکھنا بھی چاہتی ہیں۔ عاشق محبوب کی زبان سے  سننا چاہتا ہے  کہ عیش کے  لمحے  کیسے  ہوتے  ہیں، اپنی ناک سے  محبوب کے  جسم کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہے، خوشبو رشتہ بن جاتی ہے، لذتوں  کے  لمحوں  یا عیش کے  لمحوں  میں  یہ خوشبو پورے  وجود میں  سما جاتی ہے۔ عیش کے  لمحوں  میں  محبوب کے  موتی جیسے  ہونٹ آبِ حیات عطا کرتے  ہیں۔ عاشق ہونٹ پر ہونٹ رکھتا ہے  تاکہ زیادہ سے  زیادہ جنسی لذّت حاصل ہو۔ اسی طرح رُخسار سے  رُخسار ملتے  ہیں  تو جنس کی خوشبو  اور  تیز ہو جاتی ہے، محبوب کے  بازو گلے  کا ہار  بن جائیں، محبوب بازوؤں  میں  سما جائے اور عیش کے  لمحوں  میں  زیادہ سے  زیادہ تپش پیدا ہو جائے، چھاتی  اور  چھاتی مل کر دوست بن جائیں، وصل کی تصویر اس طرح مکمل ہوتی ہے:

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

صرف ورڈ فائل         

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول