صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


قسط در قسط زندگی

نصر ملک

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

اس کی ماں کی ماں 

    ’’میری ماں اگر واقعی میں مجھ سے محبت کرتی ہوتی اور اسے اگر میری کچھ بھی قدر و قیمت کا احساس ہوتا تو پھر اسے میرے بچپن ہی میں ہی یوں اپنی زندگی ختم کر دینے کی کیا ضرورت تھی!‘‘ کارین تیز تیز قدم اٹھاتی گھر جا رہی تھی۔ ’’اسے یہ خیال بھی نہ آیا کہ اس کی بیٹی کا کیا بنے گا؟ وہ اگر واقعی مجھ سے محبت کرتی ہوتی تو کم از کم اتنا تو ضرور سوچتی،  خود کشی تو نہ کرتی۔ ‘‘ کارین تیزی سے چلتی جا رہی تھی۔ ’’بہتر یہی ہے کہ سبینا کو اس بارے میں کبھی معلوم نہ ہو۔ ‘‘

    اس شام گھر میں داخل ہوتے ہی کارین اپنی بیٹی کا منہ چڑھانے لگی تھی۔ سبینا حیران تھی کہ ماں کو کیا ہو گیا تھا۔ وہ مذاق سمجھ رہی تھی،  لیکن اس کی شوخیوں نے کارین کو اور بھی غصہ دلا دیا تھا اور وہ بہانے بناتی ہوئی اُس پر برس رہی تھی۔ ’’سکول سے آ کر تم نے ابھی تک اپنا لباس بھی تبدیل نہیں کیا،   تمھارے جوتے ڈرائنگ روم میں کیوں پڑے ہیں ؟ ذرا اپنے بال تو دیکھو!‘‘

    سبینا خاموش ہو گئی تھی اور پھر اپنی چیزوں کو ٹھیک کر کے اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر کے بستر پر گر گئی تھی۔ اُدھر کارین بھی باورچی خانے میں مصروف ہو گئی تھی۔ اُس نے اپنے لئے کافی کی پیالی بنائی اور صوفے پر آن بیٹھی۔ ’’آج کا دن بھی بے کار کیفے ٹیریوں کی نذر ہو گیا۔ ‘‘ اُس نے سوچا۔ ’’میں کسی بھی طرح محض ’’بیکار عورت‘‘ نہیں ہوں،  میرا بھی وجود ہے اور اس وجود کی اہمیت بھی! میں کوئی لایعنی چیز نہیں ہوں۔ ‘‘ وہ سوچ رہی تھی۔ ’’میرے ساتھ جو سلوک میری ماں نے کیا ہے میں وہ کبھی بھی سبینا کے ساتھ نہیں کروں گی۔ ۔ ۔ ۔ سبینا میری بچی!‘‘

    سبینا اب اپنے کمرے سے آنکھیں ملتی ہوئی ڈرائنگ روم میں آ گئی تھی اور باتھ روم کی طرف جاتے ہوئے اُس نے بڑی گہری نگاہوں سے ماں کو دیکھا۔ ان دونوں کی آنکھیں چار ہوتے ہی کارین نے اپنی نظریں جھکا سی لی تھیں اور سبینا باتھ روم میں چلی گئی تھی۔  ’’اس میں سبینا کا کیا دخل ہو سکتا ہے جو زندگی مجھ سے یوں بیزار ہے۔ ‘‘ کارین ابھی تک گردن جھکائے ہوئے تھی۔ کافی کی پیالی کا اُسے احساس ہی نہ رہا تھا۔

    باتھ روم سے نکل کر سبینا پھر اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گئی تھی۔ کچھ دیر بعد کارین اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک دیتے ہوئے،  جواب کا انتظار کئے بغیر اندر داخل ہو گئی اور جاتے ہی سبینا کو اپنی بانہوں میں جکڑ کر اس کے ساتھ لیٹ گئی تھی۔ سبینا نے پہلے تو بڑی شدت کے ساتھ خود کو اس کی بانہوں سے آزاد کرانے کے لئے زور لگایا لیکن پھر خود ہی اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اور آہستہ آہستہ سسکیاں بھرنے لگی۔ ’’نہیں میری ننھی شہزادی میرا مقصد غصّے ہونا نہیں تھا،  کبھی ماں بھی ۱پنی اولاد سے ناراض ہو سکتی ہے،  نہیں ! نہیں،  میری بچی!!‘‘ کارین،  سبینا کے لمبے سنہری بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں بولے جا رہی تھی۔ سسکیاں بھرتے بھرتے،  تھوڑی دیر کے بعد جب سبینا کی آنکھ لگ گئی تو کارین بڑی آہستگی کے ساتھ اُٹھ کر،  چپکے سے ڈرائنگ روم میں آ گئی۔

    اُس نے الماری میں سے وائین کی ایک بوتل نکالی اور اسے کھول کر ایک گلاس وائین سے بھرکر ہوا میں بلند کیا۔ ۔ ۔ ۔  ’’چیئرز کارین!‘‘  اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے اس نے پورا گلاس ایک ہی گھونٹ میں خالی کر دیا اور بوتل سے پھر گلاس میں وائین انڈیل لی۔ وہ کافی دیر یوں ہی بیٹھی،  خلا میں گھورتی وائین پیتی رہی۔ اس رات وہ صوفے پر ہی سو گئی تھی۔

    رات کے پچھلے پہر جب اُس کی آنکھ کھلی تو اُسے اپنا گلا خشک ہوتا محسوس ہوا۔ اس نے بوتل میں بچی کھچی وائین گلاس میں انڈیل کر اس سے اپنا حلق تر کیا۔ اُسے اپنے کاندھوں پر اپنا سر بہت بھاری لگ رہا تھا۔  ’’مجھے اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے۔ ‘‘اس نے وائین کی خالی بوتل کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ اب وہ پھر صوفے پر ہی لیٹ گئی تھی۔ ’’تمھیں ہمیشہ اپنے آپ کو ایک اچھی لڑکی ثابت کرنا چاہیے۔ ‘‘ نجانے اسے اپنی ماں کی یہ نصیحت اس وقت کہاں سے اور کیسے یاد آ گئی تھی۔  ’’ایک اچھی لڑ کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ انہی خیالوں میں وہ ایک بار پھر سو گئی تھی۔

    جیسا کہ یہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہوا تھا۔ آج صبح بھی اُسے سبینا ہی نے جگایا تھا۔ جونہی کارین نے آنکھیں کھولیں اور سامنے کھڑی سبینا کے چہرے کو دیکھا تو وہ اس سے آنکھیں ملانے کی تاب نہ لا سکی۔ اُسے یوں لگا جیسے نو سالہ سبینا کی آنکھیں اُسے بہت کچھ کہہ رہی تھیں۔ کہہ کہا وہ تو شاید اُسے ملامت کر رہی تھیں۔ ۔ ۔ ۔  ’’شرم کرو،  شرم ! ماں تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے؟ تم نے تو کہا تھا کہ تم  رات کو اب وائین نہیں پیو گی! اپنی اس حالت کی تم خود ذمہ دار ہو،  تم خود ماں !‘‘ ننھی سبینا شراب کی بوتل کو گھورتی ہوئی باتھ روم کی طرف چل دی تھی۔ سبینا نے جن نگاہوں سے اپنی ماں کو دیکھا تھا اس کا مطلب تو صاف ظاہر تھا لیکن،  کارین کو اُن کے پیچھے چھپی ہوئی بیکراں محبت کا بھی احساس تھا۔ ’’ایک بیٹی کی اپنی ماں کے لئے محبت!‘‘

    سبینا باتھ روم سے فارغ ہو کر اب ڈرائینگ روم میں آ چکی تھی اور اپنی ماں کو بازوؤں سے پکڑ کر اُسے اوپر اُٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ’’تم نشے میں ہو، سبینا بولی اور پھر اُسے چھوڑ کر اپنے میں چلی گئی۔  ایسا ہر روز ہی ہوتا تھا۔ کارین اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اب باتھ روم کی طرف جا رہی تھی اور جونہی اس کی نظریں وہاں آئینے پر پڑیں اُسے اپنی صورت سے وحشت سی ہونے لگی۔  کھلے بے ترتیب سے بال،   لال سرخ سوجھی ہوئیں آنکھیں اور اُن کے گرد نیلگوں مائل سیاہ حلقے۔ وہ بڑی مشکل سے سنبھلنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اپنا آپ برقرار نہ رکھ سکی اور دھڑام سے نیچے گر گئی تھی۔ اس کے گرنے کی آواز سن کر سبینا دوڑتی ہوئی باتھ روم میں آئی اور اسے اوپر اُٹھانے لگی۔ ’’میں تمھاری مدد کرتی ہوئی ماں ! چلو تم اپنا چہرہ تو دھولو۔ ‘‘ وہ ماں کو سہارا دے کر اوپر اُٹھاتے ہوئے بولی۔

    کارین کو اپنی حالت سے زیادہ ننھی بیٹی پر رحم آنے لگا تھا،  لیکن وہ تو خود ابھی تک نیچے گری ہوئی تھی۔ ’’نہیں میری بیٹی،  یہ بڑوں ہی کا کام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔  میں تم سے تمھارا بچپنا ہرگز نہیں چھیننا چاہتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم بچی ہو اور تمہیں ابھی بچی ہی رہنے کا مکمل حق ہے۔ ‘‘ کارین غوں غان کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بالکل وہی منظر اُبھر آیا تھا جب وہ خود سبینا کی عمر کی تھی اور اپنی ماں کی اسی طرح مدد کیا کرتی تھی جس طرح آج اُسے سبینا سہارا دے رہی تھی۔

    ’’میں نے واقعی میں اپنے آپ کو بیوقوف اور پاگل بنا رکھا ہے۔ ‘‘ اب وہ اُٹھ کر بیٹھ چکی تھی اور سبینا کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے تھی۔ ’’میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ اب تم مجھے چھوڑو اور اپنے سکول جانے کی تیاری کرو،  کیا تم نے ناشتہ کر لیا ہے؟‘‘ وہ اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے ڈالتے ہوئے بولی۔

    ’’ماں تمہیں پتہ بھی ہے اب دس بج چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔  اب سکول جانے کا فائدہ؟‘‘ سبینا بولی۔  ’’میں تمھارے ساتھ گھر ہی پر رہوں گی،  سکول جا کر اپنا مذاق کیوں اُڑواؤں !‘‘ یہ کہہ کر وہ باتھ روم سے باہر چلی گئی۔ کارین کے پاس اُس سے بحث کرنے کے لئے نہ تو الفاظ تھے اور ہی کوئی ہمت۔  وہ سبینا سے کسی بھی طرح الجھنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑی آنسو بہا رہی تھی اور،  جب آنسوؤں کی دھندلاہٹ کم ہوئی تو اُس نے آئینے میں بڑے غور سے اپنے چہرے کا جائزہ لیا اور پھر اپنے سراپے پر ایک نظر ڈالی۔ وہ بتیس برس کی تھی لیکن اس کا طور طریقہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آگے کچھ سوچنے ہی والی تھی کہ اسے سبینا کا خیال آ گیا۔ ’’سبینا،  میری بچی! تم کتنی مددگار ہو،  مجھے خود اگر اپنے لئے نہیں تو کم از کم تمھارے لئے خود کو اب ضرور بدلنا ہو گا۔ ۔ ۔ ۔  سبینا،  میری بیٹی،  میں اپنے آپ کو  بدلوں گی!‘‘

۔۔۔۔ اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول