صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


قرطاس

مدیر: محمد امین

مئی جون 2006

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                                         ٹیکسٹ فائل

نام کتاب    : ’’گنجا نامہ‘‘ (ادب الاطفال)

نام کتاب    : ’’گنجا نامہ‘‘ (ادب الاطفال)    مصنف    :عادل اسیر دہلوی
مبصر    :منظور عثمانی

عادل اسیر موجودہ دور میں شفیع الدین نیر کے بعد ادب الاطفال کے سلسلے میں سب سے معتبر نام ہے۔ایک معنون میں ان کی ادبی کاوشیں نیر سے بھی زیادہ لائق تحسین ہیں کیونکہ ان کی پشت پر جامعہ جیسا ادارہ  اور  ’’پیام تعلیم‘‘  جیسا رسالہ بھی نہیں۔ چنانچہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں صرف اپنے بل بوتے پر  ہیں۔ وہ آرمڈچیئر رائٹر (Armed chair)   نہیں بلکہ بہ یک وقت مصنف، فنانسر، پبلیشر  اور سیلز مین بھی ہیں۔

عادل اسیر کے لیے زندگی پھولوں کی سیج کبھی نہیں رہی۔ نامساعد حالات نے اتنی فرصت بھی نہیں دی کہ وہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم ہی مکمل کر سکیں۔ آج اگر وہ ایم اے ہیں تو یہ ان کی ذاتی تگ و دو اور حوصلہ مندی کا انعام ہے۔ وہ دراصل ’’دانش گاہ دہر‘‘  کے سندیافتہ ہیں۔ اسی لیے ان کے پیر سدا زمین پر ٹکے رہے ہیں۔ ان کی حقیقت پسند نگاہ نے انہیں یہ باور کرا دیا کہ صنف اطفال کی طرف سے بے جا  اور غیر فطری چشم پوشی کی گئی ہے۔

بہت پہلے ہندوستان کی تعلیمی پالیسی پر کسی انگریز ماہر تعلیم نے رائے زنی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت میں گاؤں ہیں ہی نہیں۔ کچھ ایسا ہی احساس بچوں کے ادب کی طرف سے اردو ادیبوں کی عدم توجہی کو دیکھ کر بھی ہوتا ہے۔ اس رویہ کا اس سے بہتر ثبوت  اور کیا ہو سکتا ہے کہ نیشنل کونسل فارپرموشن آف اردو لینگویج کی ۹۰۰ کے قریب مطبوعات میں جو تقریباً ۸۰ کتابیں بچوں کے ادب پر شائع ہوئی ہیں ان میں بیشتر دوسری زبانوں کے تراجم ہیں۔ (جو نہ اردو پڑھنے والے بچوں کے ماحول سے مطابقت رکھتی ہیں  اور نہ مزاج سے)  اور اگر ان کتابوں کے حجم پر نگاہ کی جائے وہ کونسل کے ذریعے شائع کی گئی دو چار لغات کے ہم پلہ بھی نہیں (جن کی صحت پر آئے دن اخبارات میں انگلی اٹھتی رہتی ہے) انجمن ترقی اردو(ہند) کا دامن تو یکسر خالی ہے۔ اس کے لیے اس ادارہ کے ارباب حل و عقد سے بصد احترام دریافت کر نے کو جی چاہتا ہے کہ ’’بھلے لوگو! فروغ اردو میں بچوں کے ادب پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے کیا؟‘‘

شاید اس صنف سے اس بے مثال لاپرواہی کاہی اثر ہے کہ ہم نہ اسماعیل میرٹھی نہ افسر میرٹھی  اور نہ ہی شفیع الدین نیر کی روایت کو باقی رکھ پائے ہیں۔ آج غنچہ  اور کھلونا جیسے معیاری رسائل ناپید ہیں۔ چند رسائل جو ادب اطفال کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں وہ لگتا ہے جیسے ہاری ہوئی جنگ کے محاذ پر ہیں۔ مکتبہ جامعہ جس نے ڈاکٹر ذاکر حسین کی ایما پر اس میدان میں قابل قدر کام کیا تھا وہ شاہد علی خاں کی طرح بوڑھا  ہو چکا ہے۔

اطمینان کی بات ہے کہ عادل اسیر نے اس کمی کو شدت سے محسوس کیا ہے۔ انھوں نے اپنے بل بوتے پر اسے پورا کر نے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ وہ اس فرض کو اپنے محدود وسائل کے باوجود نبھانے کی جی توڑ کوشش کر رہے ہیں ، جسے دوسرے محبان اردو نے غیر ضروری جان کر قابل اعتنا نہ سمجھا، وہ اپنے قلم  اور ادارے کے ذریعے بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی بچوں پر کتابوں کی تعداد تیس سے زیادہ ہے۔ جن میں سے چھ مختلف کتابوں کو ہندوستان کی بعض اردو اکیڈمیوں نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انعامات سے نوازا ہے۔ شکر ہے کہ وہ جوان ہیں  اور ان کے عزائم ان سے بھی جوان تر۔ ان کی ان کتابوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی صلاحیتیں کتنی ہمہ جہت ہیں۔ ان میں کہانیاں ، پہیلیاں ، کہہ مکرنیاں ، رباعیاں ، ماہیے ، دوہے ، نعتیں ، نظمیں ، گیت  اور تراجم شامل ہیں۔ مثلاً امیر  خسرو کی پہیلیاں ، گلستاں کی کہانیاں ، بیربل کی کہانیاں ، بچوں کی رباعیاں ، بچوں کے گیت، بچوں کی نظمیں ، بچوں کے دوہے ، بلے بلے (بچوں کے ماہیے)، آ سہیلی بوجھ پہیلی(کہہ مکرنیاں) گلدستہ نعت وغیرہ ان کی لگن، ذوق و شوق  اور انہماک کو دیکھتے ہوئے یقین کامل ہے ، بقول شاعر:

مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے

عادل اسیر کے یہاں ترسیل کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کی حقیقت شناس نظروں سے یہ حقیقت اک لمحے کے لیے بھی اوجھل نہیں ہوتی کہ وہ بچوں کے ادیب و شاعر ہیں  اور ان کے مخاطب بچے ہیں۔ وہ بات سادگی سے کہنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں دل سے اٹھ کر دل پر پڑنے کی تاثیر ہے۔ بچوں کے لیے لکھی کتابوں کے لیے انھیں ان کی ذہنی سطح پر لانے کے لیے ہلکا پھلکا  اور کم سے کم بوجھل انداز بیاں درکار ہوتا ہے۔ ادب اطفال میں یقیناً اخلاقی سطح پران کی ذہنی تربیت مقصود ہوتی ہے۔ لیکن جب تک انداز بیان دلچسپ، آسان  اور قابل فہم نہ ہو تو بات بنتی نہیں۔ عادل کی مقبولیت کا راز اسی نکتہ میں پنہاں ہے۔

عادل اسیر حسن مزاح کی خداداد نعمت سے بہرہ ور ہیں۔ زیر نظر ان کی معرکۃ الآرا تخلیق ’’گنجا نامہ‘‘  اس کی منہ بولتی مثال ہے۔ اسے اگر ان کا شاہکار کہا جائے تو  شاید غلط نہ ہو گا۔ گنجوں سے متعلق لطائف و واقعات کو اتنی سادگی و پرکاری سے نظم کر دینا واقعتاً انہی کا حصہ ہے۔ یہ قاری کے لیے تفریح طبع کا سامان ہی نہیں زبان و  یبان پران کی شاعرانہ قدرت کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے۔  ’’گنجا نامہ‘‘  میں کچھ دلچسپ مثالیں ملاحظہ ہوں :

(۱)     ’’گنجا یتیم‘‘  میں ایک مولانا نے یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے سے اتنی نیکیاں ملتی ہیں جتنے اس کے سر پر بال۔ اس پر اعتراض سنئے :

اک دہاتی اٹھ کے بولا، ہے ثواب اس میں عظیم

مولوی جی کیا کریں جب گنجا ہو کوئی یتیم

(۲)    ماں بچے کے باپ کے سر پر بال نہ ہونے کا جواز یہ پیش کرتی ہے کہ کیونکہ تمہارے ابو ذہین ہیں  اور دماغی کام کرتے ہیں اس لیے ان کے بال اڑ گئے۔ اس پر بچہ کیا دلچسپ  اور معنی خیز نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ سنئے :

اب سمجھ میں آ گیا ہے پیاری امی یہ سوال

آپ کے سر پر ہیں کیوں یہ ڈھیر سارے لمبے بال

(۳)    نظم ’’خالی مکان‘‘  میں بیوی شوہر کے گنجے پن کا مذاق اڑاتی ہے تو پلٹ کر وار کرتے ہوئے شوہر کہتا ہے :

میرے سر پر کچھ نہیں تو تیرے سر میں کچھ نہیں

چھت مری خالی ہے تو کیا تیرے گھر میں کچھ نہیں

(۴)    بیوی دعویٰ کرتی ہے اپنی سہیلیوں سے کہ میرے شوہر کا کوئی بال بھی بانکا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ:

اے مری ہمجولیو! ہیں گنجے بے چارے میاں

(۵)     ’’چھوٹی سی بات‘‘ میں لیڈر پبلک سے دوران تقریر کہتا ہے کہ میں کیا نہیں کر سکتا۔ اس پر ایک آواز آتی ہے : ’’آپ کنگھا کر نہیں سکتے جناب‘‘

(۶)    میزبان کا بچہ ہنستے ہوئے گنجے مہمان کو اطلاع دیتا ہے کہ آئینہ، صابن، تولیے کے ساتھ ساتھ:

 ’’آپ کے کمرے میں باجی رکھ گئی ہیں کنگھا بھی‘‘

مختصر یہ کہ  ’’گنجا نامہ‘‘  ایک بے حد دلچسپ تخلیق ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ ترسیل کا فرض پوری پوری طرح ادا کرتی ہے۔ ایسی کتابیں ہی بچوں کے ذوق کو مہمیز کرتی ہیں۔ دعا ہے :اللہ کرے زور قلم  اور زیادہ

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول