صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
موتیوں کا دیس قطر
پروفیسر عاشق حسین شیخ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
اگر دنیا کے نقشہ پر نظر ڈالیں تو مملکت قطر سعود ی عرب کے ساتھ ایسے جڑی ہوئی نظر آتی ہے جیسے ہتھیلی کے ساتھ انگوٹھا۔(ارض مقدس کے ساتھ اس کا ویسا ہی تعلق ہے جیسا کہ ہاتھ کے ساتھ انگوٹھے کا) یعنی انگوٹھا ہاتھ کا مدد گار اور اس کی گرفت میں ممد و معاون ہوتا ہے۔یوں مملکت قطر ارض مقدس ہی ہے۔اس کا حدود اربعہ کچھ یوں ہے:اس کے شمال میں بحیرۂ عرب یعنی خلیج فارس ،جنوب میں بھی خلیج فارس یا خلیج عرب ،مشرق میں بحیرۂ عرب اور مغرب میں بحیرۂ عرب اور سعودی عرب اس کا جنوب مغربی حصہ سعودی عرب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔یوں یہ ایک مکمل جزیرہ نما ہے۔یعنی اس کے تین اطراف میں سمندر اور چوتھی طرف خشکی ہے۔
قطر کا رقبہ تقریباً گیارہ ہزار چار سو سینتیس مربع کلو میٹر[11437
KM]ہے۔اس کی شکل بیضوی(Oval)ہے یعنی درمیان سے قدرے چوڑا اور دونوں سروں
سے تنگ ہے۔ سب سے زیادہ چوڑائی اس کے دار الحکومت دوھا اور دخان کے درمیان
تقریباً100کلومیٹر ہے۔ مشرقی ساحل پر دوھا شہر اور مغربی ساحل پر دخان کا
قصبہ ہے۔شمالی قصبہ کا نام مدینۃ الشمال ہے۔ جنوب میں ابوسمریٰ کا قصبہ
ہے۔قطر اور سعودی عرب کے بارڈر پر السمریٰ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔____یہ ہے
وہ خوبصورت مملکت جس کو دیکھنے کا مجھے اعزاز حاصل ہوا۔میرا بیٹا انجینئر
طارق حسین شیخ ،قطر میں کام کرنے والی ایک امریکن کمپنی جنرل
الیکٹرک(GE)میں مینجر کے طور
پر کام کر رہا
ہے۔میری خواہش کو دیکھتے ہوئے اس نے میرے لئے ویزہ بھجوا دیا۔چنانچہ میں
اپنی اہلیہ کے ساتھ 15جنوری کو عازم قطر ہوا۔پی آئی اے کی فلائیٹ رات 9بجے
اسلام آباد سے روانہ ہوئی اور پشاور میں آدھ گھنٹہ رکنے کے بعد دوھا(قطر)
کی طرف روانہ ہوئی اور مقامی وقت کے مطابق رات بارہ بجے ہم دوھا ایئر پورٹ
پر اتر گئے۔دوھا پہنچنے سے پہلے فضا سے دوبئی،شارجہ وغیرہ کی روشنیاں
دکھائی دیں۔یہ ایک نہایت خوبصورت منظر تھا جس کو الفاظ میں بیان کرنا بہت
مشکل ہے۔روشنی کی لمبی لمبی لکیریں بتا رہی تھیں کہ وہ
دوبئی،ابوظہبی،شارجہ وغیرہ کی شاہراہیں۔یہ مسحور کن مناظر دیکھنے کے بعد
ہم دوھا کے ہوائی اڈہ پر اترے۔اس سے قبل فضا سے ہم نے دوھا شہر کا نظارہ
کیا جو کہ روشنی میں نہایا ہوا تھا۔اس کی سڑکیں اور بلند و بالا عمارات
بجلی کے قمقموں سے روشن تھیں۔زمین پر اترنے سے قبل ہم نے فضائی منظر سے
لطف اٹھایا۔خیال آیا کہ جو شہر رات کی تاریکی میں اتنا اجلا اور دلکش ہے
وہ دن کے اجالے میں تو اور بھی جادو اثر ہوگا۔مجھے اپنی قسمت پر ناز ہوا
کہ اللہ نے ارض مقدس سے ملحقہ ایک اور شہر کا دیدار کروایا۔اس سے قبل2009ء
میں اپنے رب کریم کے کرم سے میں نے سعودی عرب کا ایک بڑا حصہ دیکھا تھا جس
کا ذکر میں نے اپنے سفرنامہ’’سفر سعادت‘‘ میں کیا ہے۔سفر قطر سے شاید اس
خواہش کی تکمیل ہونے والی تھی جو کہ ہر مسلمان کے دل میں ساری عمر مچلتی
رہتی ہے۔عرب کی سرزمین اللہ کے نبیوں کا وطن ہے اور اہل عرب اللہ کے ان
نیک لوگوں کی اولاد ہیں جن سے اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ۔
اہل
عرب زیادہ تر خانہ بدوش تھے۔انگریزی میں ان کو نومیڈNomadsکہتے ہیں چنانچہ
صحابہ کرام کی اولادیں اور ان کے رشتہ دار پورے عرب کے باسی ہیں۔میرے اس
خیال کی تصدیق اس وقت ہوئی جب میں دوھا کی ایک مسجد میں نماز پڑھنے
گیا۔مسجد کا نام تھا ’’عائشہ ابو عینین‘‘ ابو عینین ایک قبیلہ کا نام ہے
جو کہ بدر کے مقام پر آباد تھا،جہاں اسلام اور کفر کے درمیان عظیم الشان
معرکہ ہوا جس میں اللہ نے اپنے رسول کی مدد فرشتوں کے لشکر سے کی اور پاک
سرزمین سے کفر و شرک کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوا۔بو عینین بدر سے آ
کر قطر میں آباد ہوئے اور شاہی خاندان کے ممتاز افراد ہیں۔یہ مسجد اسی
قبیلۂ محترم کے ایک فرد نے بنائی جو کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ
کے دست و بازو تھے۔قطر بھی وہ قطعہ زمین ہے جو کہ براہ راست
محمد رسول اللہ ﷺ کی حکمرانی میں رہا۔
دوھا ایئر پورٹ پر اترتے وقت خیال تھا کہ امیگریشن والے بہت
سختی سے پیش آئیں گے کیونکہ اس سے قبل مجھے ایسا تلخ تجربہ اس وقت ہوا تھا
جب میں مئی 2009ء میں دمام ایئر پورٹ پر اترا تھا۔وہاں سعودی حکام نے ہمیں
دو تین گھنٹے روکے رکھا اور بلا وجہ مسافروں کو پریشان کیا گیا تھا۔لیکن
دوھا میں مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب اہل کاروں نے ہمارے ساتھ نہایت اچھا
رویہ اختیار کیا۔آدھ گھنٹہ میں ہم ایئر پورٹ سے باہر آ گئے۔میرا بیٹا ہمیں
لینے کے لئے باہر موجود تھا۔ ہم بخیر و خوبی اس کی رہائش گاہ پہنچ گئے اور
اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے آرام سے سو گئے۔
موجودہ تعمیرو ترقی سے قبل قطر ایک پس ماندہ ملک تھا۔اس کی معاشی
حالت ناگفتہ بہ تھی۔لوگوں کا ذریعۂ آمدنی زیادہ تر ماہی گیری اور سمندر سے
موتی نکالنا تھا۔قطر ٹی وی کا لوگو اب بھی سمندر سے ایک
کشتی کا برآمد ہونا ہے۔قدرت نے قطر کے سمندر کو قیمتی موتیوں سے مالا مال
کیا ہے اسی لئے قطر کے ساحل پر خوبصورت عمارات کو قطر کا موتی(PEARL
QATAR) کا نام دیا گیا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ جب اپنی اہلیہ ہاجرہؑ اور معصوم
فرزند حضرت اسماعیل ؑ کو مکہ مکرمہ کی وادی میں چھوڑنے آئے تو اللہ تعالیٰ
سے دعا کی کہ میں اپنے خاندان کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر جا رہا
ہوں تُو اس مقام کو آباد فرما اور لوگوں کو اپنی نعمتوں سے نواز۔اللہ
تعالیٰ نے ان کی دعا سن کی اور اس ریگستان کو ایسی دولت عطا کی جس نے اہل
عرب کو دنیا کی امیر ترین قوم بنا دیا اور تمام عالم روزگار کی تلاش میں
وہاں آ نکلا۔دنیا کی ہر نعمت وہاں پہنچ گئی۔کوئی ایسا پھل نہیں جو وہاں
میسر نہ ہو۔خوشحالی تو لوگوں کے چہروں پر دمکتی ہے۔
اقتباس
٭٭٭