صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
وہی قرض میں نے چکا دیا۔۔
افسانے
نسرینہ سروش قاضی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
تقسیم
آج ان کی زندگی کا سب سے اہم دن تھا۔ آج ان کا انتخاب کالج کی ہائی
ٹیم کے لیے ہونے والا تھا۔ ایک بہترین کھلاڑی ہونے کے باوجود ان کے دل میں
ایک عجیب سی بے چینی تھی۔انھوںنے اس کامیابی کو پانے کے لیے جی توڑ محنت
کی تھی۔ رات دن ایک کردیے تھے۔ بڑی لگن، محنت ، جدوجہد کے بعد اس منزل کے
قریب پہنچے تھے۔ بے چینی اور اضطراب کے عالم میں وہ مکان کے صحن میں ادھر
سے ادھر ٹہل رہے تھے۔ انھیں ایک ایک پل ایک سال کے برابر محسوس ہورہا تھا۔
ہر آواز، ہر آہٹ پر وہ چونک کر دیکھنے لگتے۔ کتنا جان لیوا ہوتا ہے ایسے
موقعوں پر انتظار:
اُف یہ امید و بیم کا عالم
کون سے دن منڈھے چڑھے گی بیل
ہائے یہ انتظار کے لمحے
جیسے سگنل پہ رک گئی ہو ریل
ان کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ انھیں دور سے اپنا ایک ساتھی دوڑتا ہوا آتا دکھائی دیا جسے دیکھ کر ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ دل دھڑک دھڑک کر پہلو سے باہر نکل آئے گا۔ ان کا ساتھی قریب آیا اور وہ خوش خبری سنائی جس کا انھیں بے چینی اور بے صبری سے انتظار تھا۔ انھیں ہاکی ٹیم کے کھلاڑی کے طور پر منتخب کرلیا گیا تھا۔ آج ان کی برسوں کی محنت اور لگن رنگ لائی تھی۔
انھوںنے کالج کی تعلیم کے دوران ہاکی ٹیم میں کھیل کے وہ جلوے دکھائے کہ ان کی ٹیم ہمیشہ کامیابی کی منزلوں کو چھوتی رہی۔ فتح ہر وقت ہر موقع پر ان کے قدم چومتی رہی۔ انھیں اپنی ٹیم کا سب سے بہترین کھلاڑی ہونے کا اعزاز نصیب ہوا۔ اب ان کا مشغلہ روزانہ پابندی سے کسرت کرنا، ہاکی کی پریکٹس اور پڑھائی کرنا تھا۔ کھیل کے ساتھ پڑھائی کی طرف پوری توجہ دے کر انھوںنے اچھے نمبروں سے بی۔کام کی ڈگری حاصل کرلی۔
ہاکی بہترین کھلاڑی ہونے کی وجہ سے جلد ہی ان کا تقرر بینک کی سروس کے لیے ہوگیا اور سروس کے تقریباً ایک سال بعد ہی ان کے والد نے ان کی شادی ایک متوسط طبقے کے اچھے خاندان میں کردی۔ جس لڑکی سے ان کی شادی ہوئی وہ زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھی لیکن سلیقہ مند، سمجھدار اور کفایت شعار ضرور تھی اور ان کے والدین کا بھی پوری طرح خیال رکھتی تھی۔ ان کی گھریلو زندگی نہایت اطمینان بخش اور پرسکون تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ کھیل کے میدان میں اپنے کھیل کے بہترین جلوے دکھا سکے اور ترقی کرکے انٹرنیشنل کھلاڑی بن گئے۔
وقت تیز رفتاری سے ہوا کے دوش پر سوار گذرتا چلا جاتا ہے۔ کسی کے روکے نہیں رکتا۔ کچھ عرصے بعد والدین تو داغِ مفارقت دے گئے۔ اب ان کے خاندان میں چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ان کی زندگی کا مقصد کھیل کے شعبے میں بھرپور ترقی کرنے کے بعد اب یہ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ توجہ اپنے بیوی بچوں پر مرکوز رکھتے۔ ان کے کھانے پینے کا پورا خیال رکھتے۔ ان کے کپڑوں، کتابوں، روزمرہ کی ضروریات کی طرف پوری توجہ دیتے۔ انھیں اپنی اہلیہ اور بچوں سے بے انتہا محبت اور دلی لگاؤ تھا۔ وہ ان کو ذرا بھی دکھ اور تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ انھیں نااتفاقی بالکل پسند نہیں تھی۔ گھر کے افراد ہوں، خاندانی رشتہ دارہوں، عزیز و اقارب ہوں یا دوست آشنا ، وہ سب سے نہایت خوش اسلوبی سے رشتہ جوڑے ہوئے تھے۔ وہ ان لوگوں کی آپسی رنجشوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔ وہ سب سے یہی کہتے کہ مل جل کر رہنے میں ہی زندگی کی خوشی ہے۔ لڑنا، جھگڑنا رنجشیں لے کر جینا بہت بری بات ہے۔ اس کا انسان کی زندگی پر اور اس کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ وہ اپنے ضرورت مند عزیز و اقارب کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ ان کی لڑکیوں کی شادیاں کرواتے۔ ان کے لڑکوں کی پڑھائی پر پیسے خرچ کرتے۔ برے وقت میں ان کے کام آتے۔ نماز روزے کے پابند تو وہ شروع ہی سے تھے۔ عملیات میں انھیں اچھا خاصہ دخل تھا۔ اس علم میں بھی انھوںنے مہارت حاصل کی تھی۔ لوگ اکثر ان کے پاس بیماروں کے لیے دھاگہ ، تعویذ اور دم کیا ہوا پانی لینے آتے تھے۔ وہ اس کام کے لیے بھی پابندی سے وقت نکال لیتے تھے۔ ان کے در سے کوئی خالی ہاتھ اور مایوس نہیں لوٹتا تھا۔
نماز تو وہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ ایک مرتبہ بینک میں کام کرتے ہوئے ڈیوٹی کے دوران جمعہ کے روز وہ نماز کو جانے کے لیے اٹھے۔ بینک منیجر سے انھوںنے اجازت طلب کی۔ شاید بینک میں اس دوران کوئی خاص اور اہم کام شروع تھا۔ منیجرنے انھیں نماز کے لیے جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے باوجود وہ نماز ادا کرنے چلے گئے اور وہاں سے آکر انھوںنے نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ انھیں ایسی نوکری گوارا نہ تھی جس کی وجہ سے نماز میں رکاوٹ ہو۔
ان کے بچوں میں کسی نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ کوئی بھی دسویں اور بارہویں جماعت سے آگے نہیں بڑھا تھا۔ لڑکیوں کی شادیاں انھوںنے بارہویں جماعت پاس کرتے ہی کردی تھیں۔ لڑکوں میں سے کوئی بھی ایسی حالت میں نہ تھاکہ نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد ان کی مالی امداد کرسکے۔ اپنے جی۔پی۔ایف سے جتنا بھی روپیہ ملا انھوںنے وہ سب بزنس میں لگانے کا ارادہ کیا اور اس کے تحت انھوںنے کام بھی شروع کردیا۔ بینک سے لون لے کر اور کچھ اپنے پاس کی پونجی اس میں جوڑکر انھوںنے شہر کے مشہور علاقہ میں ریڈی میڈ گارمنٹس، اور ایک گفٹ کارنر، اس طرح دو شوروم کھولے اور لڑکوں کے ساتھ مل کر بزنس شروع کردیا۔ وہ اتنے چاق و چوبند، چست اور پھرتیلے تھے کہ پچاس سال کی عمر میں بھی جوانوں سے زیادہ جوان اور تندرست نظر آتے تھے۔ لباس بھی بے حد قرینے اور سلیقے سے پہنتے تھے۔ خوش مزاج اور زندہ دل انسان تھے۔ جو بھی ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔
تین سال میں انھوںنے بزنس میں اتنی ترقی کی کہ ایک نیا شوروم ساڑی سینٹر کے روپ میں وجود میں آگیا۔ اسی دوران دو لڑکوں کی شادیاں بڑی دھوم دھام سے ہوئیں۔ اب ان کا معمول صبح چار بجے اٹھ کر ضرورت مندوں کے لیے پانی پردم کرنا، گنڈہ تعویذ تیار کرنا، نماز وظیفہ ادا کرنا، کسرت ہاکی کی پریکٹس، گھریلو ضروریات کی تمام چیزیں مہیا کرنا، نہادھو کرناشتے کے بعد لڑکوں کے ساتھ وکان کی دیکھ بھال، دُکانوں کے لیے مٹیریل کا انتظام وغیرہ تھا۔ صبح سے لے کر رات تک انھیں دم لینے کی فرصت نہ ملتی تھی۔ اس کے باوجود وہ بیوی، اپنی دونوں لڑکیوں اور رشتے داروں کا برابر خیال رکھتے تھے۔ حتی الامکان ان کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے اور ہمیشہ ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔ ان کے بیٹوں کو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ کون سی چیز کہاں ملتی ہے۔ دکانوں کے لیے مٹیریل کہاں سے خریدا جاتا ہے اور کیسے خریدا جاتا ہے۔
رفتہ رفتہ ان کے مال و دولت میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان کی دکانیں بہت اچھی طرح چلنے لگیں۔ یہیں سے ان کی زندگی نے ان سے بے وفائی شروع کردی۔ ان کی بدنصیبی کا آغاز ہوا۔ مال و دولت کی کثرت اور والد کی جاو بے جا مدد کی وجہ سے لڑکے لاپروا اور نکمے ہوتے چلے گئے۔ صبح دیر سے سوکر اٹھنا، کبھی دکان جانا، کبھی نہ جانا، ان کی لاپرواہی کے ساتھ فضول خرچی بھی بڑھتی چلی گئی اور پیسے کے معاملے میں ان کی آپسی رنجشیں بڑھنے لگیں۔ آپس میں معرکہ آرائیاں ہونے لگیں۔ بڑا بیٹا اپنی اہلیہ کے ساتھ الگ مکان لے کر رہنے لگا اور یہ صدمہ ان کے لیے جان لیواثابت ہوا کیونکہ وہ گھر کے کسی بھی فرد کو اپنے سے الگ نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ وہ ان سے بچھڑ کر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ وہ روز اس کے مکان پر پہنچ جاتے، اسے سمجھانے کی کوشش کرتے لیکن اس پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اسی طرح کچھ دنوں بعد ان کا دوسرا بیٹا بھی علحٰدہ رہنے لگا اور یہ بات ان کے دل کی گہرائی میں اترتی چلی گئی۔ وہ سب کو یکجا کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے لیکن ان کا گھر اتنا ہی انھیں بکھرتا ہوا نظر آنے لگا:
تنکے چنے تھے میں نے نشیمن کے واسطے
ظالم خزاں نے ان کو ہوا میں اڑا دیا
والا معاملہ در پیش تھا۔ دو بیٹے ان کے ساتھ رہتے تھے، شادی کے بعد ان میں بھی آپس کی رنجشیں شروع ہوگئیں۔ انھوںنے ہر ایک کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ وہ انھیں ایک ہی ڈور میں باندھے رکھنے میں ناکام ہوگئے۔ جس طرح موتی جب تک ایک ڈور میں پروئے ہوتے ہیں ایک دوسرے سے قریب تر ہوتے ہیں لیکن جب ڈور ٹوٹ جاتی ہے تو ایک ایک موتی الگ ہوکر بکھر جاتا ہے اور اتنی دور چلا جاتا ہے کہ پھر اسے سمیٹنا یا تلاش کرنا دوبھر ہوجاتا ہے۔ وہی حالت ان کے بیٹوں کی تھی۔ نااتفاقی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے بہت دور ہوچکے تھے۔ انھوںنے یکجا کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ لیکن ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ان کی حالت اس پرندے کی طرح تھی جس کے پراڑان کے دوران توڑدیے گئے ہوں اور وہ اونچائی سے زمین پر آگرا ہو اور اس کی حالت ایسی ہوگئی ہو کہ دوبارہ اڑنہ سکے۔ اسی طرح وہ بھی اندر ہی اندر ٹوٹ چکے تھے لیکن انھوںنے یہ بات کسی پر ظاہر نہ ہونے دی۔ بظاہر وہ اپنے کام کرنے کے انداز سے باسٹھ سال کی عمر میں بھی نوجوانوں سے زیادہ محنت کرتے اور ان سے زیادہ کام میں مشغول رہتے تھے۔ ان کے دل میں کون سی ہل چل کون سا اضطراب چھپا تھا یہ کوئی نہ جان سکا۔ انھوںنے ہرلڑکے کے لیے ایک الگ دکان کا انتظام کردیا۔ ان کے بزنس کی فائیلیں، کاغذات ان کے سپرد کردیے۔ جتنے بھی ادھورے کام تھے وہ جلد سے جلد پورے کئے۔ کون سی چیز کہاں ہے، گھر کے، دکان کے، بینک کے کاغذات کہاں ہیں ۔ یہ تمام باتیں چند ہی روز میں انھوں نے اچھی طرح سب کو سمجھا دیں ۔
ایک رات انھوں نے فون پر تمام رشتہ داروں سے دل کھول کر باتیں کیں ۔ ان کی خیریت دریافت کی۔ بیٹیوں سے باتیں کیں ۔ ان کے بچوں کا احوال جانا۔ دوسرے دن صبح بھی ان کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ نہادھو کر تیار ہوئے اور ناشتے کے بعد گھر سے روانہ ہوگئے۔ گیارہ بجے کے قریب ان کی لاش ریلوے کراسنگ پر دو ٹکڑوں میں پڑی ہوئی ملی۔ جس انسان نے اپنے بچوں ، اپنے خاندان، اپنے عزیز واقارب ، اپنے دوستوں اور خدمت خلق کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی اس کا اتنا عبرت ناک انجام۔ وہ شخص جو اپنے خاندان کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا آج اس کا جسم دو حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
اُف یہ امید و بیم کا عالم
کون سے دن منڈھے چڑھے گی بیل
ہائے یہ انتظار کے لمحے
جیسے سگنل پہ رک گئی ہو ریل
ان کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ انھیں دور سے اپنا ایک ساتھی دوڑتا ہوا آتا دکھائی دیا جسے دیکھ کر ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ دل دھڑک دھڑک کر پہلو سے باہر نکل آئے گا۔ ان کا ساتھی قریب آیا اور وہ خوش خبری سنائی جس کا انھیں بے چینی اور بے صبری سے انتظار تھا۔ انھیں ہاکی ٹیم کے کھلاڑی کے طور پر منتخب کرلیا گیا تھا۔ آج ان کی برسوں کی محنت اور لگن رنگ لائی تھی۔
انھوںنے کالج کی تعلیم کے دوران ہاکی ٹیم میں کھیل کے وہ جلوے دکھائے کہ ان کی ٹیم ہمیشہ کامیابی کی منزلوں کو چھوتی رہی۔ فتح ہر وقت ہر موقع پر ان کے قدم چومتی رہی۔ انھیں اپنی ٹیم کا سب سے بہترین کھلاڑی ہونے کا اعزاز نصیب ہوا۔ اب ان کا مشغلہ روزانہ پابندی سے کسرت کرنا، ہاکی کی پریکٹس اور پڑھائی کرنا تھا۔ کھیل کے ساتھ پڑھائی کی طرف پوری توجہ دے کر انھوںنے اچھے نمبروں سے بی۔کام کی ڈگری حاصل کرلی۔
ہاکی بہترین کھلاڑی ہونے کی وجہ سے جلد ہی ان کا تقرر بینک کی سروس کے لیے ہوگیا اور سروس کے تقریباً ایک سال بعد ہی ان کے والد نے ان کی شادی ایک متوسط طبقے کے اچھے خاندان میں کردی۔ جس لڑکی سے ان کی شادی ہوئی وہ زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھی لیکن سلیقہ مند، سمجھدار اور کفایت شعار ضرور تھی اور ان کے والدین کا بھی پوری طرح خیال رکھتی تھی۔ ان کی گھریلو زندگی نہایت اطمینان بخش اور پرسکون تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ کھیل کے میدان میں اپنے کھیل کے بہترین جلوے دکھا سکے اور ترقی کرکے انٹرنیشنل کھلاڑی بن گئے۔
وقت تیز رفتاری سے ہوا کے دوش پر سوار گذرتا چلا جاتا ہے۔ کسی کے روکے نہیں رکتا۔ کچھ عرصے بعد والدین تو داغِ مفارقت دے گئے۔ اب ان کے خاندان میں چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ان کی زندگی کا مقصد کھیل کے شعبے میں بھرپور ترقی کرنے کے بعد اب یہ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ توجہ اپنے بیوی بچوں پر مرکوز رکھتے۔ ان کے کھانے پینے کا پورا خیال رکھتے۔ ان کے کپڑوں، کتابوں، روزمرہ کی ضروریات کی طرف پوری توجہ دیتے۔ انھیں اپنی اہلیہ اور بچوں سے بے انتہا محبت اور دلی لگاؤ تھا۔ وہ ان کو ذرا بھی دکھ اور تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ انھیں نااتفاقی بالکل پسند نہیں تھی۔ گھر کے افراد ہوں، خاندانی رشتہ دارہوں، عزیز و اقارب ہوں یا دوست آشنا ، وہ سب سے نہایت خوش اسلوبی سے رشتہ جوڑے ہوئے تھے۔ وہ ان لوگوں کی آپسی رنجشوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔ وہ سب سے یہی کہتے کہ مل جل کر رہنے میں ہی زندگی کی خوشی ہے۔ لڑنا، جھگڑنا رنجشیں لے کر جینا بہت بری بات ہے۔ اس کا انسان کی زندگی پر اور اس کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ وہ اپنے ضرورت مند عزیز و اقارب کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ ان کی لڑکیوں کی شادیاں کرواتے۔ ان کے لڑکوں کی پڑھائی پر پیسے خرچ کرتے۔ برے وقت میں ان کے کام آتے۔ نماز روزے کے پابند تو وہ شروع ہی سے تھے۔ عملیات میں انھیں اچھا خاصہ دخل تھا۔ اس علم میں بھی انھوںنے مہارت حاصل کی تھی۔ لوگ اکثر ان کے پاس بیماروں کے لیے دھاگہ ، تعویذ اور دم کیا ہوا پانی لینے آتے تھے۔ وہ اس کام کے لیے بھی پابندی سے وقت نکال لیتے تھے۔ ان کے در سے کوئی خالی ہاتھ اور مایوس نہیں لوٹتا تھا۔
نماز تو وہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ ایک مرتبہ بینک میں کام کرتے ہوئے ڈیوٹی کے دوران جمعہ کے روز وہ نماز کو جانے کے لیے اٹھے۔ بینک منیجر سے انھوںنے اجازت طلب کی۔ شاید بینک میں اس دوران کوئی خاص اور اہم کام شروع تھا۔ منیجرنے انھیں نماز کے لیے جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے باوجود وہ نماز ادا کرنے چلے گئے اور وہاں سے آکر انھوںنے نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ انھیں ایسی نوکری گوارا نہ تھی جس کی وجہ سے نماز میں رکاوٹ ہو۔
ان کے بچوں میں کسی نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ کوئی بھی دسویں اور بارہویں جماعت سے آگے نہیں بڑھا تھا۔ لڑکیوں کی شادیاں انھوںنے بارہویں جماعت پاس کرتے ہی کردی تھیں۔ لڑکوں میں سے کوئی بھی ایسی حالت میں نہ تھاکہ نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد ان کی مالی امداد کرسکے۔ اپنے جی۔پی۔ایف سے جتنا بھی روپیہ ملا انھوںنے وہ سب بزنس میں لگانے کا ارادہ کیا اور اس کے تحت انھوںنے کام بھی شروع کردیا۔ بینک سے لون لے کر اور کچھ اپنے پاس کی پونجی اس میں جوڑکر انھوںنے شہر کے مشہور علاقہ میں ریڈی میڈ گارمنٹس، اور ایک گفٹ کارنر، اس طرح دو شوروم کھولے اور لڑکوں کے ساتھ مل کر بزنس شروع کردیا۔ وہ اتنے چاق و چوبند، چست اور پھرتیلے تھے کہ پچاس سال کی عمر میں بھی جوانوں سے زیادہ جوان اور تندرست نظر آتے تھے۔ لباس بھی بے حد قرینے اور سلیقے سے پہنتے تھے۔ خوش مزاج اور زندہ دل انسان تھے۔ جو بھی ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔
تین سال میں انھوںنے بزنس میں اتنی ترقی کی کہ ایک نیا شوروم ساڑی سینٹر کے روپ میں وجود میں آگیا۔ اسی دوران دو لڑکوں کی شادیاں بڑی دھوم دھام سے ہوئیں۔ اب ان کا معمول صبح چار بجے اٹھ کر ضرورت مندوں کے لیے پانی پردم کرنا، گنڈہ تعویذ تیار کرنا، نماز وظیفہ ادا کرنا، کسرت ہاکی کی پریکٹس، گھریلو ضروریات کی تمام چیزیں مہیا کرنا، نہادھو کرناشتے کے بعد لڑکوں کے ساتھ وکان کی دیکھ بھال، دُکانوں کے لیے مٹیریل کا انتظام وغیرہ تھا۔ صبح سے لے کر رات تک انھیں دم لینے کی فرصت نہ ملتی تھی۔ اس کے باوجود وہ بیوی، اپنی دونوں لڑکیوں اور رشتے داروں کا برابر خیال رکھتے تھے۔ حتی الامکان ان کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے اور ہمیشہ ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔ ان کے بیٹوں کو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ کون سی چیز کہاں ملتی ہے۔ دکانوں کے لیے مٹیریل کہاں سے خریدا جاتا ہے اور کیسے خریدا جاتا ہے۔
رفتہ رفتہ ان کے مال و دولت میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان کی دکانیں بہت اچھی طرح چلنے لگیں۔ یہیں سے ان کی زندگی نے ان سے بے وفائی شروع کردی۔ ان کی بدنصیبی کا آغاز ہوا۔ مال و دولت کی کثرت اور والد کی جاو بے جا مدد کی وجہ سے لڑکے لاپروا اور نکمے ہوتے چلے گئے۔ صبح دیر سے سوکر اٹھنا، کبھی دکان جانا، کبھی نہ جانا، ان کی لاپرواہی کے ساتھ فضول خرچی بھی بڑھتی چلی گئی اور پیسے کے معاملے میں ان کی آپسی رنجشیں بڑھنے لگیں۔ آپس میں معرکہ آرائیاں ہونے لگیں۔ بڑا بیٹا اپنی اہلیہ کے ساتھ الگ مکان لے کر رہنے لگا اور یہ صدمہ ان کے لیے جان لیواثابت ہوا کیونکہ وہ گھر کے کسی بھی فرد کو اپنے سے الگ نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ وہ ان سے بچھڑ کر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ وہ روز اس کے مکان پر پہنچ جاتے، اسے سمجھانے کی کوشش کرتے لیکن اس پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اسی طرح کچھ دنوں بعد ان کا دوسرا بیٹا بھی علحٰدہ رہنے لگا اور یہ بات ان کے دل کی گہرائی میں اترتی چلی گئی۔ وہ سب کو یکجا کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے لیکن ان کا گھر اتنا ہی انھیں بکھرتا ہوا نظر آنے لگا:
تنکے چنے تھے میں نے نشیمن کے واسطے
ظالم خزاں نے ان کو ہوا میں اڑا دیا
والا معاملہ در پیش تھا۔ دو بیٹے ان کے ساتھ رہتے تھے، شادی کے بعد ان میں بھی آپس کی رنجشیں شروع ہوگئیں۔ انھوںنے ہر ایک کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ وہ انھیں ایک ہی ڈور میں باندھے رکھنے میں ناکام ہوگئے۔ جس طرح موتی جب تک ایک ڈور میں پروئے ہوتے ہیں ایک دوسرے سے قریب تر ہوتے ہیں لیکن جب ڈور ٹوٹ جاتی ہے تو ایک ایک موتی الگ ہوکر بکھر جاتا ہے اور اتنی دور چلا جاتا ہے کہ پھر اسے سمیٹنا یا تلاش کرنا دوبھر ہوجاتا ہے۔ وہی حالت ان کے بیٹوں کی تھی۔ نااتفاقی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے بہت دور ہوچکے تھے۔ انھوںنے یکجا کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ لیکن ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ان کی حالت اس پرندے کی طرح تھی جس کے پراڑان کے دوران توڑدیے گئے ہوں اور وہ اونچائی سے زمین پر آگرا ہو اور اس کی حالت ایسی ہوگئی ہو کہ دوبارہ اڑنہ سکے۔ اسی طرح وہ بھی اندر ہی اندر ٹوٹ چکے تھے لیکن انھوںنے یہ بات کسی پر ظاہر نہ ہونے دی۔ بظاہر وہ اپنے کام کرنے کے انداز سے باسٹھ سال کی عمر میں بھی نوجوانوں سے زیادہ محنت کرتے اور ان سے زیادہ کام میں مشغول رہتے تھے۔ ان کے دل میں کون سی ہل چل کون سا اضطراب چھپا تھا یہ کوئی نہ جان سکا۔ انھوںنے ہرلڑکے کے لیے ایک الگ دکان کا انتظام کردیا۔ ان کے بزنس کی فائیلیں، کاغذات ان کے سپرد کردیے۔ جتنے بھی ادھورے کام تھے وہ جلد سے جلد پورے کئے۔ کون سی چیز کہاں ہے، گھر کے، دکان کے، بینک کے کاغذات کہاں ہیں ۔ یہ تمام باتیں چند ہی روز میں انھوں نے اچھی طرح سب کو سمجھا دیں ۔
ایک رات انھوں نے فون پر تمام رشتہ داروں سے دل کھول کر باتیں کیں ۔ ان کی خیریت دریافت کی۔ بیٹیوں سے باتیں کیں ۔ ان کے بچوں کا احوال جانا۔ دوسرے دن صبح بھی ان کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ نہادھو کر تیار ہوئے اور ناشتے کے بعد گھر سے روانہ ہوگئے۔ گیارہ بجے کے قریب ان کی لاش ریلوے کراسنگ پر دو ٹکڑوں میں پڑی ہوئی ملی۔ جس انسان نے اپنے بچوں ، اپنے خاندان، اپنے عزیز واقارب ، اپنے دوستوں اور خدمت خلق کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی اس کا اتنا عبرت ناک انجام۔ وہ شخص جو اپنے خاندان کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا آج اس کا جسم دو حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔
٭۔ ۔ ۔ ٭