صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


بجھی جاتی ہیں قندیلیں 

مصطفیٰ زیدی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پہلا پتھر 

صبا ہمارے رفیقوں سے جا کے یہ کہنا
بہ صَد تشکر و اخلاص و حسن و خو ش ادبی
کہ جو سلوک بھی ہم پر روا ہوا اس میں
نہ کو ئی رمز نہاں ہے نہ کوئی بوالعجبی
ہمارے واسطے یہ رات بھی مقدر تھی
کہ حرف آئے ستاروں پہ بے چراغی کا
لباس چاک پہ تہمت قبائے زریں کی
دل شکستہ پر الزام بد دماغی کا
صبا جو راہ میں دشمن ملیں تو فرما نا
کہ یہ تو کچھ نا کیا، ہو سکے تو اور کرے
کہ اپنے دست لہو رنگ پر نظر ڈالے
کہ اپنے دعوی ء معصومیت پہ غور کرے
حدیث ہے کہ اصولاً گنہگار نہ ہوں
گنہگار پہ پتھر سنبھالنے والے
اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں
ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے
جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا
شاہی تو مل گئی دل شاہانہ چھٹ گیا
کوئی تو غم گسار تھا، کوئی تو دوست تھا
اب کس کے پاس جائیں کہ ویرانہ چھٹ گیا
دنیا تمام چھٹ گئی پیمانے کے لیئے
وہ میکدے میں آئے تو پیمانہ چھٹ گیا
کیا تیز پا تھے دن کی تمازت کے قافلے
ہاتوں سے رشتۂ شب افسانہ چھٹ گیا
اک دن حساب ہو گا کہ دنیا کے واسطے
کن صاحبوں کا مسلک رندانہ چھٹ گیا
زمیں نئی تھی فلک نا شناس تھا جب ہم
تری گلی سے نکل کر سوئے زمانہ چلے
نظر جھکا کہ بہ اندازِ مجرمانہ چلے
چلے بَجیب دریدہ، بہ دامنِ صَد چاک
کہ جیسے جنسِ دل و جاں گنوا کے آئے ہیں
تمام نقدِ سیادت لٹا کہ آئے ہیں
جہاں اک عمر کٹی تھی اسی قلمرو میں
شناختوں کے لیئے ہر شاہراہ نے ٹوکا
ہر اک نگاہ کے نیزے نے راستہ روکا
جہاں جلے تھے ترے حسنِ آتشیں کے کنول
وہاں الاؤ تو کیا راکھ کا نشاں بھی نہ تھا
چراغ کشتۂ محفل دھواں دھواں بھی نہ تھا
مسافرت نے پکارا نئے افق کی طرف
اگر وفا کی شریعت کا یہ صلہ ہو گا
نئے افق سے تعارف کے بعد کیا ہو گا
پہلی محبت کے نام مصطفی زیدی
وقت سے کس کا کلیجہ ہے کہ ٹکرا جائے
وقت انسان کے ہر غم کی دوا ہوتا ہے
زندگی نام ہے احساس کی تبدیلی کا
صرف مر مر کے جیئے جانے سے کیا ہوتا ہے
تو غم دل کی روایات میں پابند نہ ہو
غم دل شعر و حکایت کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ تری کم نظری ہے کہ تیری آنکھوں میں
ایک مجبور شکایت کے سوا کچھ بھی نہیں
ارتقاء کی نئی منزل پہ مصور کی نگاہ
اپنی تصویر کے انداز بدل جاتی ہے
زاویئے پاؤں کے ہر رقص میں ہو تے ہیں جدا
ہر نئے ساز پہ آواز بدل جاتی ہے
یہ مرا جرم نہیں ہے کہ جرس کے ہمراہ
میں نئی راہ گزاروں پہ نکل آیا ہوں
میرے معیار نے اک اور صنم ڈھال لیا
میں ذرا دور کے دھاروں پہ نکل آیا ہوں
پھر بھی تقدیر کو اس کھیل میں کیا لطف ملا
(تیرے نزدیک جو ہم معنیِ الزام بھی ہے)
آج جس سے مرے آنگن میں دیئے جلتے ہیں
تیری ہم شکل بھی ہے اور تیری ہم نام بھی ہے
دردِ دل بھی غمِ دوراں کے برابر سے اٹھا
آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا
تابشِ حُسن بھی تھی آتشِ دنیا بھی مگر
شُعلہ جس نے مجھے پھُونکا، میرے اندر سے اُٹھا
کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی
آگ بھی، ابر بھی، طوفان بھی ساغر سے اُٹھا
بے صَدف کتنے ہی دریاؤں سے کچھ بھی نہ ہوا
بوجھ قطرے کا تھا ایسا کہ سمندر سے اٹھا
چاند سے شکوہ بہ لب ہوں کہ سُلایا کیوں تھا
میں کہ خورشیدِ جہانتاب کی ٹھوکر سے اُٹھا

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول