صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


قندیل
اور دوسرے افسانے

وقار مسعود

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل


قندیل

ہینڈز اَپ ! خبردار اگر کوئی حرکت کی تو....بولو جان پیاری ہے تمہیں ؟

ہاں !ہے پیاری....

تو پھر ہینڈز ڈاؤن ....آنکھیں بند کر کے ہاتھ پیچھے باندھ لو اس کے علاوہ بدن میں جنبش نہیں ہونی چاہیے۔

اس نے خاموشی سے ہاتھ پیچھے باندھ لئے....

شاباش اب سچ سچ بتاؤ....مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو....جھوٹ بولنے کی کوشش مت کرنا ورنہ ....فقرہ ادھورا چھوڑ دیا گیا....

زیّاد نے دونوں بازو کھول کر دائیں بائیں پھیلا دیئے اور منہ پھاڑ کر بولا....اتنا....اتنا پیار کرتا ہوں۔

ہاتھ پیچھے ہی باندھے رکھو جاہل.... کیا مرنے کا ارادہ ہے؟

ہاں ....تمہارے ہاتھوں ہی مرنے کا ارادہ ہے....میٹھے میٹھے ہاتھوں سے میٹھی میٹھی موت....

شٹ اَپ....وہ چلائی....فری ہو جاؤ....اور منہ بسور کر بیڈ پر جا کے بیٹھ گئی۔


جب سے زیّاد کے رشتے کی بات چل رہی تھی تب سے قندیل کے سپنوں کی مشعل دن بہ دن دھیمی پڑتی جا رہی تھی۔قدموں میں سُست روی اور خیالوں میں نا شائستگی پیدا ہو رہی تھی۔وہ اکیلی کر بھی کیا سکتی تھی،صرف وہ دونوں ہی جانتے تھے کہ دنیا کی آنکھ کے پسِ پردہ اندر ہی اندر ان کے دلوں میں محبت کے چراغ روشن ہیں ، عشق کی تانیں رقص کرتی ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی اسے زیّاد کی شادی کے بارے میں کھسر پھسر میں شریک ہونا پڑتا، ماموں ممانی کو نت نئے مشورے دینے پڑتے،قندیل کو بچپن سے ہی سینے میں درد کی شکایت رہتی تھی۔ اب پتھروں جیسے بھاری بھاری دکھ اس کے دل پر باری باری برس رہے تھے اور وہ زیّاد کیسا لڑکا تھا کہ زبان پر خاموشی کا قفل باندھے لا پرواہ بندر کی اچھلتا پھرتا تھا۔کہتا تھا....

میری مرضی کے بغیر کون کرا سکتا ہے میری شادی....اوں ہوں ....ناممکن....تم دیکھنا کہ میری بارات تمہارے ہی در پر آئے گی۔تمہیں دلہنیا بنا کر ، ڈولی میں بٹھا کر، سجا کر اپنے گھر لے آؤں گا۔مگر افسوس کہ تم ڈولی میں نہیں بیٹھ سکتیں ....

یہ سنتے ہی قندو روشن دان کی طرح غصے سے آنکھیں کھول کر پوچھتی....کیوں ؟....اور وہ دانش مندی سے سمجھانے بیٹھ جاتا....دیکھو بھئی ....ایک ہی گھر کی اوپر والی منزل سے نیچے قدم رنجہ فرمانے کے لئے ڈولی تو نہیں منگوائی جا سکتی لیکن میں زینوں پہ ہتھیلیاں اور پلکیں بچھا دوں گا۔قالین کو گلاب پتیوں سے سجا دوں گا۔اور قندو بڑی مشکل سے اپنے منہ زور دل کو سمجھا پاتی کہ بندیا اسی کے ماتھے پر سجے گی۔

زیّاد کی غیر موجودگی میں جب رشتے کروانے والی ماسیاں بڑے زور و شور سے ممانی کو کسی لڑکی کے اوصاف گنوا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتی تو قندو بڑی معصومیت سے اس لڑکی کی صورت سیرت میں خامی نکال کر اسے قطار سے باہر کروا دیتی۔ممانی کے رشتہ داروں میں بھی دور پار تک کوئی جوان جہان لڑکی نہ تھی کہ اسی کو زیّاد سے بیاہ دیتے اور قندو پر ان کی نظر ہی کیوں پڑتی۔وہ تو شروع سے زیاد کے ساتھ کھیلتی کودتی جوان ہوئی تھی۔مگر بے حس ماموں ممانی کو یہ کون سمجھا پاتا کہ بچپن سے اکٹھے پروان چڑھنے والے ایک دوسرے کے لیے اپنے مزاج بدل دیتے ہیں اور ایسا ہی تو ان دونوں کے درمیان ہوا تھا۔

پچھلے پانچ سات بر س کے کسی سرمئی موسم میں ایک دن جھجکتے ہوئے زیّاد نے اس سے کہا....قندو میں تمہارے بنا جی نہیں سکتا....اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی....اپنے جذبات کا ایسا بھونڈا مذاق بنتا دیکھ کر پہلے تو اُس کی رگِ مردانگی پھڑکی لیکن وہ شرافت سے سوالی بنا بیٹھا رہا۔پھر بولا....

قندو مجھے تم سے....لیکن گردن جھکا کر خاموش ہو گیا۔

ہاں بولو....بولو شاباش ....تم بول سکتے ہو....تم میں ہمت ہے....قندو نے اسے دلاسہ دیا....وہ ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکائے بیٹھی تھی۔

زیّاد فرش پر آلتی پالتی مار کے بیٹھ گیا۔ہتھیلیاں قندو کے گھٹنوں پر رکھ کر وہاں اپنا چہرہ رکھ دیا اور گلا کھنکھار کر بولا....تم کتنی اچھی ہو نا....

وہ تو میں ہوں ....قندیل نے فضا میں ہاتھ لہرائے....

مجھے تم سے پیار ہے....پیار کرتا ہوں میں تم سے....وہ رکے بغیر بولتا چلا گیا....جیسے مال گاڑی کے ڈبے پٹڑی پر کھیلتے بچوں کی ٹمٹماتی آنکھوں کے سامنے سے ایک ایک کر کے گزرتے چلے جاتے ہیں ،اسی طرح وہ بھی کہتا چلا گیا۔

قندو نے سکون سے اس کے چہرے کو ہٹایا اور بیڈ پر لیٹ گئی۔زیّاد نے نیچے بیٹھے بیٹھے گدے پر ہی چہرہ ٹکا دیا اور کہنے لگا۔کچھ کہو نا تم بھی....

وہ آہستگی سے بولی....ہم بچپن سے پیار ہی تو کرتے آئے ہیں۔ہمارے کھیل کود، لڑائی جھگڑے،ضد اور من مانی میں محبت کا عنصر ہی تو شامل ہے۔کیا وجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں۔دور بھی تو ہو سکتے تھے۔لازمی تو نہیں کہ ایک ہی ماحول میں دو خون اگر اکٹھے رہیں تو ان میں مماثلت پیدا ہو جائے....یگانگت پید ا ہو جائے۔مگر ایسا ہی ہوا....کیونکر ہوا....زیّاد اس کی وجہ پیار ہی تو ہے۔تم نے مجھے محبت کی مورت بنا دیا ہے۔اپنی ذات کے ذرے ذرے کو میرے جسم میں بسا دیا ہے۔مَیں مَیں نہیں تم ہوں ....تم ہو زیّاد تم ہو۔مجھ میں تم زندہ ہو۔میرا جسم میرا اور نام میرا ہے۔باقی سب کا سب تم ہو اور آئندہ یہ بات میں تمہیں کبھی نہیں سمجھاؤں گی۔وہ کروٹ بدل کر سسکیاں لینے لگی۔

اس روز کے بعد انہوں نے ایک دوسرے کو یقین دلانے کے لئے قسمیں نہیں اٹھائیں۔کوئی مصدقہ دلائل پیش نہیں کیے۔آنکھوں ہی آنکھوں میں مستقبل کے عہد و پیمان باندھ رکھے۔

ایک دن بابا نے زیّاد کو بلوایا اور بولے....بیٹا تم تو جانتے ہو کہ آج کل تمہاری شادی کی بات چل رہی ہے تو تم اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لو....

یہ سب اچانک....وہ چونک پڑا....لیکن لڑکی کون ہے؟

تم بے فکر رہو....کسی بہت ہی اچھے گھرانے کی سلیقہ مند لڑکی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔ اقتباس

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول