صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اوج قمر
استاد قمر جلالوی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تو نے
کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے
اس کرم کو مری مایوس نظر سے پوچھو
ساقی بیٹھا رہا اور اٹھ کے پلا دی تم نے
مجھ پہ احسان نہ رکھو جان بچا لینے کا
مرنے دیتے مجھے کاہے کو دعا دی تم نے
یہ کہو پیش خدا حشر میں منثا کیا تھا
میں کوئی دور کھڑا تھا جو صدا دی تم نے
ان کے آتے ہی مزہ جب ہے مرا دم نکلے
وہ یہ کہتے ہوئے رہ جائیں کہ دغا دی تم نے
کھلبلی مچ گئی تاروں میں قمر نے دیکھا
شب کو یہ چاند سی صورت جو دکھا دی تم نے
(****)
اپنی زلفیں کیوں سرِ بالیں پریشاں کر چلے
آپ تو بالکل مرے مرنے کا ساماں کر چلے
دیکھ اے صیاد چھینٹے خوں کے ہر تیلی پر ہیں
ہم ترے کنجِ قفس کو بھی گلستاں کر چلے
دل میں ہم شرما رہے ہیں شکوۂ محشر کے بعد
پیشِ حق کیوں آئے کیوں ان کو پشیماں کر چلے
اے چمن والو! جنوں کی عظمت دیکھ لی
اِن گلوں کو واقفِ چاکِ گریباں کر چلے
اپنے دیوانوں کو تم روکو بہاریں آ گئیں
اب کنارہ بابِ زنداں سے نگہباں کر چلے
اے قمر حالِ شبِ فرقت نہ ہم سے چھپ سکا
داغِ دِل سارے زمانے میں نمایاں کر چلے