صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
قبض زماں
شمس الرحمن فاروقی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
میں بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا،اس وجہ سے نہیں کہ میرے ذہن میں کوئی خلفشار تھا یا دل میں کوئی خلش تھی۔ کبھی کبھی شام ڈھلتے ہی اور بستر پر جانے کے پہلے احساس ہو جاتا ہے کہ آج کی رات نیند نہ آئے گی۔ مجھے کیفی اعظمی کے مصرعے یاد آئے،لیکن یہ خیال میں نہ آسکا کہ میں نے انھیں کب اور کہاں پڑھا تھا ؎
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
ہم
ہندوستانیوں کے لیے گرمی سے بہت زیادہ سردی آزار رساں ہے (کم از میرا تو
یہی خیال ہے) لیکن ہم گرم ملک کے رہنے والے،مئی جون کی کٹھور دھوپ میں
چٹیل میدانوں میں ننگے پاؤں چلنے والے،ہمیں گرمی۔ ۔ اف گرمی۔ ۔ ۔ لگتا ہے
آ سمان سے آگ برس رہی ہے۔ ۔ زمین یوں تپ رہی ہے کہ دانہ ڈالو تو بھن جائے۔
۔ ۔ وہ دھوپ ہے کہ چیل انڈا چھوڑتی ہے (یہ محاورہ میں نے بچپن میں کہیں
پڑھا تھا،اب تو سننے میں بھی نہیں آتا،لیکن اسی وقت سے مجھے خلجان رہتا
تھا کہ آخر چیل ہی کیوں ؟اور انڈا چھوڑنے کے کیا معنی ہیں ؟ اگر یہ کہ چیل
انڈے پر بیٹھی تھی اور اب اسے انڈے کو سینے کی ضرورت نہیں بھی کہ گرمی کے
مارے انڈا خود ہی سے جائے گا،تو پھر بہت سے پرندے ایسے ہوں گے،بچاری چیل
ہی کیوں ؟شاید اس لیے کہ چیلیں صرف مئی جون میں انڈا دیتی ہیں ؟مگر یہ بات
کچھ دل کو لگتی نہیں۔ اس وقت تو نہیں سمجھ سکا تھا،لیکن ذرا علم لسان کی
شد بد ہوئی تو معلوم ہوا کہ زبان یوں ہی الل ٹپ ہوتی ہے۔ لفظ "الل ٹپ" سے
اب شاید بہت سے لوگ واقف نہ ہوں، اس لیے اس کا انگریزی ترجمہ arbitrary
عرض کیے دیتا ہوں (گویا اس لفظ کے جاننے والے بہت سے ہوں گے)۔ ۔ ۔ بچپن
میں ایک بار "الف لیلہ"(اب اس کو کیا کیجیے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ اسے
"الف لیلیٰ"سمجھتے ہیں، یعنی شاید الف ب کی وہ کتاب جسے لیلیٰ پڑھتی تھی)۔
۔ ۔ خیر میں اسی "الف لیلیٰ " کی سند باد جہازی والی کہانی فارسی میں پڑھ
رہا تھا۔ کہانی یوں شروع ہوتی تھی کہ اس دن اس قدر گرمی اور تپش تھی کہ
"جگر حربا می سوخت۔ "بھلا یہ "حربا"کون ہے؟مولوی صاحب نے بتایا کہ اسے
اردو میں "گرگٹ" کہتے ہیں (بلکہ ہماری طرف تو اسے "گرگٹان" کہتے تھے،شاید
اس لیے کہ اس طرح گرگٹ اور زیادہ زہریلا معلوم ہوتا تھا)۔ اس وقت بھی مجھے
یہ فکر لگی تھی کہ آخر بچارا گرگٹان ہی کیوں ؟اور بھی تو ایسے جانور ہوں
گے جنھیں گرمی بہت لگتی ہو گی؟ لیکن یہ معما اب تک حل نہ ہوا۔ مجھے
زوالوجی(Zoology)پڑھنی چاہیے تھی۔ (آج کل بہت سے لوگ اسے "جولاجی"کہتے
ہیں۔ پھر فرق کیا پڑتا ہے؟علم تو وہی ہے۔ )
کیفی
صاحب مرحوم کی نظم (اگر یہ نظم ان کی ہے)کے دو مصرعوں نے مجھے کہاں سے
کہاں پہنچا دیا۔ یہ بہر حال حقیقت تھی کہ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی، اور
ہوا بھی کچھ گرم تھی۔ آخر اپریل کی رات تھی،مئی جون نہ سہی،اور میں اپنے
آبائی گاؤں کے آبائی مکان کے دروازے پر دور تک پھیلی ہوئی کھلی زمین پر
نیم کے نیچے سورہا۔ ۔ ۔ نہیں، بلکہ سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ پرانی
وضع کا بھاری پلنگ،جسے کئی لوگ مل کر میری خاطر اٹھا کر اندر میری دادی کے
کمرے سے لے آئے تھے۔ اس کی نواڑ ابھی اچھی حالت میں تھی،دادی کے زمانے کی
دریاں اور چادریں بھی مہیا تھیں۔ دادی کا زمانہ؟اب ان کو غریق رحمت ہوئے
چھ دہائیوں سے زیادہ گذر چکی تھیں۔ خاندان کے لڑکے لڑکیاں جواب کم و بیش
تمام دنیا میں پھیلے ہوئے تھے،ان کے لیے ساٹھ برس سے بہت کم کی مدت بھی
قبل تاریخ کا زمانہ معلوم ہوتی تھی۔ فرینک کرموڈ نے کہیں لکھا ہے کہ آج کل
کے طالب علم کے لیے ہر کتاب قبل تاریخ کے زمانے کی ہے اگر وہ پندرہ، یا ا
س سے زیادہ برس پہلے لکھی گئی تھی۔
اقتباس
٭٭٭