صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
پر اسرارکہانیاں
ترجمہ: محمد اقبال قریشی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
طلسمی چیتا
ایک منفرد شکاری داستان جس میں شکاریوں کو حیوانوں کے ساتھ ساتھ مافوق الفطرت طاقتوں سے بھی دو دو ہاتھ کرنا پڑے
رسالدار شیر علی خان/محمد اقبال قریشی
جس زمانے کا یہ واقعہ ہے، تب ہندوستان میں جنگل زیادہ اور انسانی آبادیاں کم کم ہوا کرتی تھیں۔ کئی دیہات جنگلوں کے بیچ واقع تھے اور ان کے مابین فاصلہ بھی خاصا زیادہ تھا۔ بجلی نہ ہونے کے باعث اکثر گزرگاہیں سرِشام ہی ویران ہو جایا کرتی تھیں۔ ایسے میں اگر کوئی درندہ آدم خور ہو جاتا تو اسے زیر کرنا بڑا دقت طلب کام ہوتا۔ یہ کام اس وقت مزید دقت طلب ہو جاتا جب آدم خور کسی ایسے علاقے میں پیدا ہوتا جہاں اکثریت ہندو آبادی کی ہوتی۔ سب جانتے ہیں کہ ہندو ایک توہم پرست قوم ہے اور ان کے مذہب کی بنیاد ہی توہم پرستی پر ہے۔ اسی باعث وہ آدم خور کی وارداتوں کو کسی مافوق الفطرت قوت سے منسوب کر دیتے اور آدم خور سے متعلق طرح طرح کے من گھڑت قصے گھڑ لیتے۔ یہ قصے مقامی باشندوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے ساتھ ساتھ شکاری کی راہ میں روڑے اٹکانے کا باعث بھی بنتے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک مقامی آبادی کا تعاون حاصل نہ ہو، ماہر سے ماہر شکاری بھی اپنی مہم بخوبی سرانجام نہیں دے سکتا۔
اس عجیب و غریب داستان کا آغاز جون ۱۹۲۰ء کی ایک شام کو ہوا جب میں سروہی کے جنوب میں کوہ ارون کے دامن میں پہنچا۔ مجھے انگریز شکاری مسٹر ہڈسن سے ملاقات کرنا تھی۔ اس وقت کیمپ میں مسٹر ہڈسن موجود نہیں تھے۔ کچھ دیر بعد وہ آئے تو میں نے ان سے کہا کہ میں کوہ ابون سے آیا ہوں ، میرا نام شیر خاں ہے اور میں سیکنڈ رائل لانسر میں رسالدار ہوں۔ مجھے ایجنٹ برائے گورنر جنرل راجپوتانہ نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ مسٹر ہڈسن نے کہا ’’اس وقت میں تھکا ہوا ہوں ، آپ کھانا کھا کر سو جائیں صبح شکارگاہ میں چل کر آپ کو تمام واقعات سناؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر مسٹر ہڈسن اپنے خیمے میں چلے گئے۔ میں نے کھانا کھایا اور چاندنی رات میں پہاڑی مناظر دیکھنے لگا۔ مسٹر ہڈسن کا شکاری کیمپ کوہ ارون کی بلند و بالا چوٹی کے نیچے ایک خوفناک مقام پر تھا۔ کیمپ کے سامنے تاریک جنگل تھا۔ پہاڑ کو چیرتی ہوئی نشیب میں ایک ندی بہ رہی تھی، وہاں کی زمین سیاہ اور چکنی تھی۔ کچھ دیر بعد جب چاند چھپ گیا تو ملازموں نے کیمپ میں آگ کے الاؤ روشن کیے اور بندوقوں سے مسلح ہو کر باری باری پہرہ دینا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد میں سو گیا۔ صبح اٹھا تو ملازموں نے مجھے اکیس مرے ہوئے سانپ دکھائے جو انہوں نے رات کو کیمپ کے آس پاس ہلاک کیے تھے۔
اتنے میں مسٹر ہڈسن آ گئے۔ ہم نے کھانا کھایا پھر انہوں نے قریب کے خیمے سے امر سنگھ کو بلایا اور مجھے اور امر سنگھ کو ساتھ لے کر ایک پہاڑی درے میں پہنچے۔ درے کے سامنے گھنے درختوں کا ایک جھنڈ تھا جس میں ایک چشمہ تھا۔ چشمے کے کنارے ایک بہت گہرا غار تھا۔ غار کے سامنے ایک اونچے درخت کے نیچے پہاڑی چٹان پر ایک پتھر رکھا تھا۔ امر سنگھ نے پتھر ہٹایا، اُس کے نیچے چٹان خشک خون میں لتھڑی ہوئی تھی.
مسٹر ہڈسن بولے ’’شیر خان یہ میرے دوست مسٹر تھامسن کا خون ہے۔ جب تک میں تھامسن کے قاتل سے انتقام نہیں لے لیتا مجھے سکون نصیب نہیں ہو گا۔ دو ماہ ہوئے میں اور تھامسن سیروشکار کی غرض سے کوہ ارون آئے۔ یہاں ایک آدم خور کی خونخواری کا بہت چرچا تھا۔ امر سنگھ کا بھائی مان سنگھ بھی ہمارے ساتھ تھا۔ ہم نے اس چٹان کے قریب واقع درخت پر مچان بندھوایا۔ رات کو میں مچان پر تھا جب تھامسن اور مان سنگھ میرے لیے کھانا لے کر آئے۔ تھامسن آگے اور مان سنگھ پیچھے تھا۔ اچانک آدم خور نے تھامسن کو اس چٹان پر دبوچ لیا، مان سنگھ چلایا۔ میں نے سامنے بندھے ہوئے بھینسے کی طرف دیکھا مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔ میں مچان سے نیچے اُترا، سامنے کا منظر میرے ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی تھا۔ چاندنی میں ایک چیتا چٹان پر بیٹھا تھامسن کی گردن دبوچے ہوئے تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں بیسیوں درندے شکار کیے ہیں مگر میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس سے زیادہ عجیب و غریب اور حسین درندہ میں نے آج تک اپنی زندگی میں دوبارہ نہیں دیکھا۔ اُس چیتے کا حلیہ بڑا ہی عجیب و غریب تھا، منقش کمربند، منقش کلائی بند اور سر پر چمڑے کی جڑاؤ ٹوپی اُسے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ظاہر کر رہی تھی۔ چند ثانیے کے لیے میں دم بخود کھڑا اُس حیوان کو دیکھتا رہا۔
معاً چیتے نے تھامسن کو چھوڑ کر مان سنگھ پر جست لگائی اور اُسے دبوچ لیا۔ مان سنگھ گرانڈیل جوان اور پیشہ ور شکاری تھا لیکن آدم خور کے بوجھ تلے گر پڑا۔ میں نے چیتے پر تلوار کا وار کیا جو خالی گیا اور تلوار چٹان سے ٹکرا کر ٹوٹ گئی۔ چیتے نے مان سنگھ کو جبڑوں میں دبایا اور اس غار میں گھس گیا۔ میں جوشِ انتقام میں بندوق لیے ٹارچ روشن کر کے اُس کے تعاقب میں غار میں داخل ہو گیا۔ آگے غار اتنا تنگ تھا کہ اس میں چیتے کا داخل ہونا ناممکن تھا۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا، ’’یہ چیتا تھا یا آسیب؟‘‘
’’میں بُری طرح ڈر گیا۔ چیتا مان سنگھ کو لے کر میری آنکھوں کے سامنے غار میں گھسا تھا۔ غار کے دہانے پر مان سنگھ کا تازہ لہو پڑا تھا۔ اسی لمحہ مجھے مسٹر تھامسن کا خیال آیا۔ میں چٹان پر پہنچا، تو تھامسن مر چکا تھا۔ چیتے کے تیز دانتوں نے اس کی گردن اور سر کا کچومر بنا دیا تھا۔ بڑا وحشت ناک منظر تھا۔ دن نکلا تو مسٹر تھامسن کی لاش لے کر میں کوہ ابون پہنچا اور پھر چوتھے دن امر سنگھ کو ساتھ لے کر واپس یہاں آ گیا۔ مجھے تھامسن کی موت کا جس قدر غم تھا اس سے زیادہ امر سنگھ کو اپنے بھائی مان سنگھ کے مرنے کا رنج تھا۔ ہم دونوں انتقام کی آگ میں بُری طرح جھُلس رہے تھے۔
’’ایک روز آدم خور نے گراہٹی قبائل کے سردار کا اکلوتا بیٹا ہلاک کر کے اس کا خون پیا اور پھر لاش کو گھسیٹتا ہوا ندی کی طرف پہاڑوں میں لے گیا۔ دوسرے دن اس لڑکے کی بے لباس لاش ندی میں بہتی دیکھی گئی۔ قبائلی میرے پاس آ کر زار و قطار رونے لگے۔ میں نے پہلے انہیں تسلی دی اور پھر آدم خور کے متعلق تفصیلات معلوم کیں تو ان میں سے ایک شخص نے بید کی طرح کانپتے ہوئے کہا۔ ’’صاحب! ہمارے قبیلے صدیوں سے ان پہاڑوں میں آباد ہیں۔ خونخوار درندوں کو پکڑنا ہمارے لیے معمولی بات ہے لیکن یہ آدم خور، شیر یا چیتا نہیں کوئی جن یا مافوق الفطرت چیز ہے۔ یہ آسیب ہے مگر درندے کے روپ میں۔ یہ چھ ماہ میں ہمارے پچاس افراد ہلاک کر چکا ہے۔ یہ بلا انسان کی گردن کا لہو پی کر ایک حسین و جمیل عورت کا روپ دھارتی ہے اور انسان کی برہنہ لاش کے سینے پر بیٹھ کر نہاتی ہے، پھر لاش کو ندی میں بہا دیتی ہے۔ یہ تمام پہاڑ اور غاریں آسیب زدہ ہیں۔ آسیب کا علاج بندوق سے نہیں ہو سکتا۔ صاحب! آپ کسی روحانی عامل کو تلاش کریں ، ہم آپ کی جان و مال کو دعائیں دیں گے۔‘‘
اتنا کہہ کر مسٹر ہڈسن خاموش ہو گیا اور پائپ سلگا کر ہلکے ہلکے کش لینے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرے چہرے پر نظریں گاڑ کر گویا ہوا۔
’’شیر خان! آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ داستان پُراسرار اور سنسنی خیز ہے لیکن میں توہم پرست نہیں بلکہ ایک تجربے کار فوجی افسر ہوں۔ میں نے اور امر سنگھ نے ان پہاڑوں اور جنگلوں کا چپہ چپہ چھان مارا، لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے اور جس وقت میں نے اپنی آنکھوں سے ایک برہنہ لاش کو ندی میں بہتے دیکھا تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ امر سنگھ، مان سنگھ جیسا بہادر اور نامور شکاری نہیں ہے اس لیے میں نے ایجنٹ برائے گورنرجنرل راجپوتانہ کو لکھا کہ میری مدد کے لیے کوئی تجربہ کار فوجی شکاری بھیج دیجیے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ تشریف لے آئے۔ میرا دماغ ماؤف ہو چکا ہے۔ اب آپ جو چاہیں کریں۔‘‘
مسٹر ہڈسن کی زبانی یہ غیر معمولی روداد سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کیونکہ میں آسیب بھوت اور چڑیلوں کا قائل نہیں ہوں مگر یہ سنسنی خیز واقعات سن کر میرا بھی ذہن ڈول گیا۔ ہم واپس کیمپ میں آئے تو شام کے سائے پھیلنے لگے تھے۔ ہم نے باہمی مشاورت سے اگلی صبح آدم خور کی تلاش کا پروگرام بنایا اور پھر اپنے اپنے خیمے میں جا کر سو گئے۔ رات دو بجے اچانک ایک پہرے دار کی دلدوز چیخ سنائی دی۔ میں خیمے سے نکلا۔ آگ کے الاؤ پر کیمپ کے لوگ جمع تھے۔ اس جگہ ایک پہرے دار بُری طرح تڑپ رہا تھا، اس کے قریب ہی چھ فٹ لمبا ایک سیاہ رنگ کا سانپ مرا پڑا تھا۔ مسٹر ہڈسن نے بتایا کہ چاند چھپ گیا تھا، اس دوران پہرے داروں کی غفلت سے الاؤ کی آگ بھی بجھ گئی۔ گھپ اندھیرے میں اس بدقسمت پہرے دار کا پاؤں ناگ پر پڑا اور ناگ نے اِسے ڈس لیا۔ اسی دم ٹارچ کی روشنی میں میرے ملازم محبوب خان نے دم پکڑ کر سانپ کو زمین سے اٹھایا اور پھر جھٹکا دے کر اُس کی کمر بیچ سے توڑ دی۔ ناگ خاصی دیر تک زمین پر پڑا تڑپتا رہا۔ اب میرے آنے کے بعد محبوب خاں نے سانپ کا سر کچل کر اسے ہلاک کیا ہے۔ محبوب خاں سانپوں کا بہترین شکاری ہے اور ناگ کے ڈسے کا ماہر طبیب بھی۔ محبوب خاں نے خون کا دوران روکنے کے لیے پہرے دار کے پاؤں میں کپڑا باندھا اور پھر آگ کے دہکتے ہوئے انگارے سے ڈسی ہوئی جگہ کو جلا دیا۔ اب زخم میں دوا بھر کر پٹی باندھ دی گئی ہے۔ شیر خاں ! ہمیں بہت محتاط رہنا ہو گا، یہ علاقہ سانپوں کا گڑھ ہے۔‘
٭٭٭٭٭٭٭