صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
فکشن کے فنکار: پریم چند
ڈاکٹر شکیل الرحمن
مرتّب: شیخ عقیل احمد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
تیسری طاقت (The Third Force)
پریم چند نے جہاں کرداروں کی صورت میں تیسرے آدمی یا تیسری شخصیت کو پیش کیا ہے وہاں تیسری طاقت کو بھی نمایاں کیا ہے۔ کس طرح کچھ لوگ ایک ساتھ مل کر طاقت بن جاتے ہیں اور ان کے عمل سے انتشار پیدا ہوتا ہے۔ کہانیوں میں کشمکش اور المیہ کے ڈرامے تیسری طاقت کے ذریعہ بھی پیش ہوئے ہیں۔ کبھی ان سے کوئی گھریلو زندگی تباہ ہوتی ہے۔ تو کبھی سماجی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ سماجی زندگی میں ایسی منظم جماعتیں موجود ہیں کہ جن کی حیثیت تیسری طاقت کی ہے۔ اپنے مفادات کے لیے مذہب اور سماجی تقاضوں کا سہارا لے کر یہ جماعتیں افراد کی زندگی میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔ ’’زادِ راہ16‘‘ کا المیہ اس وقت شروع نہیں ہوتا جب سیٹھ رام ناتھ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں بلکہ اس کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب ان کے انتقال کے بعد برادری کے لوگ ان کے گھر میں قدم رکھتے ہیں۔ مذہب اور برادری کے نام پر سیٹھ دھنی رام، کبیر چند، بھیم چند اور سنت لال اس گھر کو تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ سب تیسری طاقت کے نمائندے ہیں۔ مکان فروخت ہو جاتا ہے۔ زیورات چلے جاتے ہیں۔ بیوہ کو بچوں کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑتا ہے اور وہ ایک انتہائی اذیت ناک زندگی بسر کرتی ہے۔ یہ سب برادری کی اس طاقت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ تیسری طاقت معلوم نہیں کتنے گھروں کو تباہ کر چکی ہے۔ سیٹھ جھابر مل اس تیسری طاقت کے سب سے بڑے نمائندے ہیں۔ جو ریوتی جیسی کم سن لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں او ر جب ناکامی ہوتی ہے تو اپنے گھر سے سوشیلا اور اس کے بچوں کو نکال دیتے ہیں۔ اس تیسری قوت سے لڑ کر افراد کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ پنچ لوگ اتنے ’شریف‘ ہیں کہ مکان فروخت کرنا نہیں چاہتے لیکن چونکہ برادری کا کھانا ضروری ہے اس لیے مکان بھی فروخت ہو جاتا ہے۔ ’’خون سفید17‘‘ میں بھی اسی تیسری طاقت کی وجہ سے بیٹا دوبارہ والدین سے جدا ہوتا ہے۔
برادری کے مطالبے کو سادھو پورا کرنا محبت کی ہتک تصور کرتا ہے۔ وہ پیار اور محبت کا بھوکا ہے۔ چودہ برس بعد اپنے والدین سے ملا ہے۔ جگن سنگھ اس تیسری قوت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
پریم چند نے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں تیسرے آدمی اور تیسری شخصیت کو دیکھا ہے او ر اس کے کردار کی مختلف جہتوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ کہیں یہ تیسری شخصیت رحمت بن کر آتی ہے او ر کہیں عذاب۔ محبت کی دنیا میں تیسری شخصیت کی تلملاہٹ مذہبی زندگی میں دیوتاؤں اور انسانوں کے درمیان پجاریوں18 کی شخصیت کسانوں او ر زمیندار کے درمیان تیسری شخصیت کا عمل،کھیت اور زمیندار کے درمیان کاشتکار کی زندگی19، گھریلو زندگی میں نوکرانی کی ذات20،بیوی اور شوہر کے درمیان کسی عورت کا ظہور21پریم چند نے ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھا ہے او ر اس طرح ہمیں چین سنگھ، جگل، جوکھو، راجہ، روپ چند، بھون داس، امرت، پورنما، شاردا چرن، سوشیلا، اُرمیلا، چندر کماری، ایشور داس، تلیا، کاؤس جی، مہاتما جی،رضا، قاسم، پنڈت درگا ناتھ، کرین، جگنو، گومتی اور وشومبھر جیسے کردار ملے ہیں۔
پریم چند کا تیسرا آدمی بنیادی حقیقتوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ انسانی نفسیات کو نمایاں کرتا ہے۔ جبلتوں کا آزادانہ اظہار کرتا ہوا ملتا ہے۔ اس کے ذریعہ انسانی نفسیات کے کئی پہلو اور گوشے نمایاں ہوئے ہیں۔ فطرتِ انسانی کی کوئی نہ کوئی سچائی ظاہر ضرور ہوتی ہے جس سے فنکار کے مشاہدے کی باریکیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ تیسری شخصیت کو پیش کرتے ہوئے اکثرتخیل سے بھی کام لیتے ہیں لیکن اپنے خاص نقطۂ نظر سے کوئی نہ کوئی ایسا پہلو اجاگر کر دیتے ہیں جس کی اہمیت مسلّم ہوتی ہے۔ پریم چند کا تیسرا آدمی مثالی بھی بنتا ہے لیکن اپنی نفسیاتی پیچیدگیوں اور باریکیوں کے ساتھ کچھ اس طرح پیش ہوتا ہے کہ اس کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگتے ہیں۔ گھاس والی کی زندگی سے دور ہٹ کر بھی اس کے قریب ہے۔ واقعات کا اثر اس کی نفسیات پر گہرا ہوتا ہے۔ غیر شعوری طور پر اپنی خواہش پوری کرتا ہے۔ اگر چہ راہ مختلف ہے۔ جب ملیا اس کے طبقے کی عورتوں کو ذلیل کہتی ہے اور چین سنگھ اپنا ہاتھ پیچھے کر لیتا ہے تو ہم یہ محسوس کر نے لگتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی مثالی کردار بن جائے گا اور افسانے کی روح فنا ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے کردار میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ایک نفسیاتی ردِ عمل کی وجہ سے خود کو ایک دوسرے روپ میں پیش کر رہا ہے۔ ملیا کے شوہر کی مدد کرتا ہے، مزدوروں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اس کے باوجود کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جبلت کے اظہار میں فرق ضرور آ گیا ہے لیکن پیچیدگی وہی ہے۔ پریم چند نے ایسے لمحوں میں ڈرامائی انداز و اثرات سے فضا کی تشکیل کی ہے ... ان کا تیسرا آدمی چین سنگھ گریز کر رہا ہو یا بھون داس گپتا، اس گریز میں ڈرامائیت ہے۔ تیسرا آدمی عام طور پر مصلحتوں کا قائل ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے گریز میں بھی مصلحت ہے۔ پریم چند کے افسانوں میں تیسرا آدمی صرف درمیان میں نہیں آتا بلکہ رونما ہونے والے واقعات پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت المیہ اور طربیہ کی ذمہ دار ہے۔ کہانی کے ارتقا،کرداروں کے عمل اور ردِ عمل اور کہانی کے انجام پر اس کی شخصیت کی چھاپ ہوتی ہے۔ تیسرے آدمی کے عمل سے ہم آنے والے واقعات کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جاتے ہیں۔ خاص اثرات و نتائج کے ساتھ اگر تیسرے آدمی میں نفسیاتی طور پر کوئی تبدیلی آتی ہے تو فضا کا رنگ بھی بدل جاتا ہے۔ پریم چند اپنے تیسرے آدمی کو متعارف کراتے ہوئے بہت محتاط رہتے ہیں۔ چند اشاروں میں اس کے خدوخال اور شخصیت کو سمجھا دیتے ہیں۔ بعض افسانوں میں تو تعارف برائے نام ہے۔ گفتگو کے انداز اور عمل اور ردِ عمل سے شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ’’گھاس والی‘‘ کا تیسرا آدمی بغیر کسی تعارف کے سامنے آتا ہے او ر ملیا کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ آہستہ آہستہ معلوم ہوتا ہے وہ کون ہے۔ اس کے خیالات کیا ہیں۔ ’’دو سکھیاں‘‘ کا بھون جب پہلی بار سینما دیکھتے ہوئے ملتا ہے تو محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی عام کردار ہے۔ ابھی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا۔ ابتدا میں صرف ایک بنگالی بابو ہے لیکن آہستہ آہستہ ابھرتا ہے تو پوری کہانی کا مرکز بن جاتا ہے۔ جب تیسرا آدمی بنتا ہے تو اس کی نفسیاتی کیفیتوں سے کہانی جان پرور بن جاتی ہے او ر جب اس کے ذہن کا شیش محل ٹوٹتا ہے تو اس کی آواز دیر تک سنائی دیتی ہے۔ ’’زادِ راہ‘‘ کے دھنی رام اور کبیر چند اپنی گفتگو سے پہچانے جاتے ہیں او ر پھر ان دونوں کی لائی ہوئی قیامت سے اس افسانے کے المیہ میں شدت پیدا ہوتی ہے۔ بھیم چند اور دربل داس کے نام سے بھی ان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔ دربل داس جب زیورات کو ہاتھ میں تول کر کہتے ہیں : ’’تین ہزار کے کیسے میں ساڑھے تین ہزار لادوں گا‘‘ تو ان کی ذات کی گہرائیوں کا احساس ہوتا ہے، ایسی کہانی میں تیسری قوت کے ساتھ ایک دلّال چوکھے لال شامل ہوتا ہے تو پریم چند اس کا تعارف چند اشاروں میں کرا دیتے ہیں۔ ’’پستہ قد آدمی، پوپلا منہ،کوئی ستر سال کی عمر نام تھا چوکھے لال!‘‘
’’فریب‘‘ کی جگنو کو پریم چند نے ابتدا میں متعارف کر دیا ہے او ر تفصیل سے باتیں پیش کی ہیں۔ ان باتوں کے پس منظر ہی میں اس بوڑھی عورت کے عمل کو سمجھنے میں زیادہ لطف ملتا ہے۔ فنکار نے اپنے تیسرے آدمی کے مکالموں کے ذریعہ ذہنی حالت اور جذبات کی اٹھان اور پستی کو پیش کیا ہے۔ عموماً تیسرے آدمی کے مکالموں میں طوالت نہیں ہوتی۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں گہری باتیں کہہ دی جاتی ہیں۔ کسی کے جذبات کی شدت کو پیش نظر رکھ کر ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے مناسب الفاظ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اسی اختصار اور افسانوی دلکشی کی وجہ سے انفرادیت نمایاں ہوتی ہے!
٭٭٭٭٭٭٭٭