صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


اردو پلے

یک بابی ڈراموں کا انتخاب

سید معز الدین احمد فاروق

ڈاؤن لوڈ کریں 

   حصہ اول      ورڈ فائل                              ٹیکسٹ فائل

     حصہ دوم    ورڈ فائل                              ٹیکسٹ فائل

سچ کازہر

ڈاکٹرمحمدحسن

   کورس    :سچ مرادیوتا
    سچ ہے انجیل، قرآن ، گیتا، خدا
    سچ ہے سقراط، عیسیٰ، محمدؐ
    سچ شہیدوں  کاخوں  پیارکاحوصلہ!
    سچ ہے خون کاوہ قطرہ جومصلوب ہے جس کاہے بریدہ بدن مضطرب سولیوں  پرچڑھا
    بے گناہی کی پاداش میں
    زندگی!زندگی!! چیختا
    مررہاہے
    سچ ہے زہریلی ناگن جوڈستی ہے انسان کے صبروسکون کوکہ پھر زندگی بھر تڑپتے گذرتی ہے اورایک کانٹانہیں  ایک بھالا۔ نہیں  ایک تلوارہے جس کو تم نے پکاراضمیراس کومانو
    سچ وہ بچہ ہے جس کاسروسینہ نیزوں  کی نوکوں  سے مجروح ہے پھربھی ہونٹوں  پہ ایک ہلکی مسکان سی ناچتی ہے
    وہ سچ اب کہاں  ہے
    چلواسے آج دنیامیں دھونڈھیں  کہیں  دیکھوسقراط کی طرح وہ قیدخانے میں بیٹھا
    زہرکاپیالہ پیتانہ ہو
    کہیں  شاہراہوں  پہ وہ
    کسی تنگ وتاریک چوراہے پر
    پرانی سولی پرلٹکانہ ہواور
    اس کی ہتھیلی میں  کیلوں  کے سوراخ ہوں 
    وہ شاید کسی کربلامیں
    کسی شمرکے خنجروں  کے تلے
    خون میں  لتھڑاہوا
    زندگی کے لئے خون بہادے رہاہو

    جسے آج سچ سے محبت ہواب بھی
    مرے ساتھ آئے
    قبل اس کے کہ جھوٹ آئے اور
    ہم سب کونگل لے
ہیرالال    :مجھے سزادیجئے سپرنٹنڈنٹ صاحب۔ مجھے سزادیجئے۔ آپ نہیں  جانتے میں  کون ہوں ۔ میرانام ہے ہیرالال میں  آپ کے شہرکے ہر چوراہے پر پچھلے دس سال سے زہربیچ رہاہوں ۔ جی ہاں  زہر!ہرروز چوراہے پر سیکٹروں  آدمی میری چکنی چپڑی باتیں  سنتے رہتے ہیں ۔ میں  کبھی تولکڑ توڑ چورن کے نام پرلسوڑھے کی پسی ہوئی پتیاں  بیچتاہوں ۔ کبھی دانتوں  کوہر مرض سے بچانے اورہردرد کودورکرنے کامنجن بیچتا ہوں ۔ جس میں  پسی ہوئی کھریاکے سوااور کچھ نہیں  ہوتا۔ کبھی ریلوے یارڈ کی مٹی کی پڑیاں  باندھ باندھ کر آنکھوں  کاسرمہ کہہ کربیچتاہوں ۔ میں کہتاہوں  میں مجرم ہوں  میں نے جنتاکی تندرستی برباد کرکے اپنی جیبیں  بھری ہیں ۔ مجھے کڑی سے کڑی سزاملنی چاہئے۔ میں نے پاپ کیاہے سپرنٹنڈنٹ صاحب! میں  پاپی ہوں ۔ آپ سن رہے ہیں  سپرنٹنڈنٹ صاحب میں  سچ کہتا ہوں ۔
سپرنٹنڈنٹ    :سن رہاہوں ۔
ہیرالال    :توپھرمجھے ہتھکڑی پہنائیے۔ جیل خانے بھیجئے۔ مجھے اپنے پاپ کی سزا ملنی چاہئے۔
سپرنٹنڈنٹ    :(گھنٹی بجاتاہے) ارے کوئی ہے؟
اردلی    :سرکار!
سپرنٹنڈنٹ    :انھیں  باہر نکال دو!
ہیرالال    :آپ کیاکررہے ہیں ؟میں  اپنے جرم کی سزامانگتاہوں  اورآپ مجھے پھر جرم کرنے کے لئے آزاد چھوڑرہے ہیں ۔ میں  سچ کہتاہوں ۔ میں پاپی ہوں ۔ دھوکے بازہوں  مجھے سزادیجئے۔
سپرنٹنڈنٹ    :دیکھتے کیاہو۔ ۔ ۔ لے جاؤ!
اردلی    :چلئے!
ہیرالال    :میری بات توسن لیجئے!
سپرنٹنڈنٹ    :کیاکوئی اوربات بھی کہناچاہتے ہو؟
ہیرالال    :جی ہاں ؟کیاآپ کے خیال میں  یہ کوئی سنگین جرم نہیں  ہے۔ لوگوں  کو دھوکادینا، ان کی آنکھوں  میں دھول جھونکنا، انھیں  طرح طرح کے بھلاوے دینا، کوڑاکرکٹ کومرہم اورمنجن کانام دے کر انھیں  بیوقوف بنانا، ان کی تندرستی تباہ کرنادھوکانہیں ہے؟
سپرنٹنڈنٹ    :ہے۔ ضرورہے۔
ہیرالال    :توآپ کے خیال میں  میں  سچ نہیں  بول رہاہوں ۔
سپرنٹنڈنٹ    :سچ کانام نہ لیجئے۔ میرے سامنے یہ لفظ بھی زبان سے مت نکالئے۔ آپ جانتے ہیں اس شہرمیں  تین دن سے ہرمردعورت بچے جوان بوڑھے کوسچ کابخار چڑھاہواہے۔ ہرآدمی سچ بول رہاہے۔ اپنے زندگی بھرکے گناہ بیان کرکے ہم سے سزاچاہ رہاہے آپ جانتے ہیں اس کا کیا نتیجہ ہواہے؟
ہیرالال    :کیاکوئی بہت برانتیجہ نکلاہے؟
سپرنٹنڈنٹ    :جی ہاں ۔ برااوربہت برا!اس کانتیجہ یہ ہواہے ہیرالال جی کہ ہماری جیل اورحوالات میں  تل رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ عدالتوں  میں  مقدموں  کی تعداد دس گنی ہوگئی ہے۔ اسٹامپ اورواٹرمارک بازار سے غائب ہوگئے ہیں  اورآپ مجھ سے کہتے ہیں  کہ میں  آپ کو جیل بھیج دوں ۔
ہیرالال    :کیاہماراشہرپاپیوں  اورمجرموں  سے بھراہواتھا؟
سپرنٹنڈنٹ    :جی ہاں !ایساہی معلوم ہوتاہے۔ کسی کوگمان بھی ہوسکتاتھاکہ اس شہر کا ہردسواں  آدمی پاپی ہے!اس کانتیجہ ہے کہ ہمارے شہرکی عزت آبرو مٹی میں  مل گئی ہے۔ ساراملک بلکہ یوں  کہئے ساری دنیااسے پاپیوں  کاشہر سمجھتی ہے۔ اس سچ نے ہمیں  غارت کردیاہے۔جائیے ہیرالال جی جائیے اس سچ کے چکرمیں نہ پڑئیے۔
ہیرالال    :ہری اوم!ہری اوم!!ہری اوم!!!
سپرنٹنڈنٹ    :ہری اوم کیاہنومان چالیساپڑھئے ہنومان چالیسا!اگر اسی طرح سچ بولتی رہی جنتاتومجھے بتائیے کہ دنیاکاکاروبار کیسے چلے گا۔
ہیرالال    :توآپ کے خیال میں دنیاجھوٹ کے سہارے چلتی ہے؟
سپرنٹنڈنٹ    :جی ہاں ، بالکل یہی خیال ہے میرا۔ دیکھئے جب سے اس شہرپرسچ بولنے کا دورہ پڑاہے وکیلوں  کے گھرفاقے ہورہے ہیں ۔ ان کے بیوی بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں ۔
ہیرالال    :کیوں ؟
سپرنٹنڈنٹ    :اس لئے کہ ان کے گھروالے جھوٹ بولنے کوتیارنہیں  ہیں ۔ان کے موکل جھوٹ بولنے کوتیارنہیں  ہیں ۔
ہیرالال    :ہری اوم!ہری اوم!!
سپرنٹنڈنٹ    :اس لئے کہتاہوں  ہیرالال جی، رام رام کیجئے اوراپنے گھرجائیے۔
ہیرالال    :نہیں  سپرنٹنڈنٹ صاحب۔ میری آتماکوشانتی نہیں ملے گی۔مجھے سزا دیجئے۔مجھے جیل بھیج دیجئے۔
سپرنٹنڈنٹ    :جیل میں جگہ نہیں ہے۔ ایسے چھوٹے موٹے مجرم کے لئے بالکل جگہ نہیں  ہے۔
ہیرالال    :سزامجرم کاپیدائشی حق ہے۔ میں واپس جانے سے انکارکرتاہوں ۔ آپ مجھے اردلیوں  سے اٹھواکر باہر بھی پھنکوادیں گے تومیں  پھر لوٹ آؤں  گا۔
سپرنٹنڈنٹ    :میں پھرباہر پھنکوادوں  گا۔
ہیرالال    :ایساکیجئے میں انتظارکرتاہوں ۔ مجھے یہیں  بیٹھارہنے دیجئے گا۔ جب حوالات میں جگہ خالی ہوجائے مجھے بھیج دیجئے گا۔
سپرنٹنڈنٹ    :کوئی امیدنہیں ۔
ہیرالال    :اس میں  آپ کاکیانقصان ہے۔ مجھ پرآپ کی بڑی کرپاہوگی۔ میں  پھردھوکادینے کے لئے سزاکے بغیردنیامیں  واپس جانانہیں  چاہتا۔
سپرنٹنڈنٹ    :اچھاآپ کی مرضی۔ بیک روم میں بیٹھ جائیے۔
ہیرالال    :شکریہ۔
سپرنٹنڈنٹ    :اردلی۔ ۔ ۔ دیکھواب کسی کواندرمت آنے دینا۔
اردلی    :جوحکم سرکار!
سپرنٹنڈنٹ    :چاہے کوئی کتناہی سچ بولے۔ ڈنڈے مارمارکر سب کاسچ نکال دو۔ خبردار جوکسی کواندرگھسنے دیا!
    (تھوڑی دیربعداردلی گھبرایاہواداخل ہوتاہے۔)
اردلی    :صاحب!صاحب ڈاکٹرشرما!
ڈاکٹرشرما    :معاف کیجئے گاسپرنٹنڈنٹ صاحب بغیراطلاع کے آناپڑا۔
سپرنٹنڈنٹ    :ڈاکٹرصاحب۔ آپ شرمندہ کررہے ہیں ۔ آپ کے خادم ہیں ۔ فرمائیے کیسے تکلیف فرمائی۔ میں  آپ کی کیاسیواکرسکتاہوں ۔
ڈاکٹر    :پہلی سیواتویہ ہے سپرنٹنڈنٹ صاحب کہ مجھے آج سے ڈاکٹر نہ کہئے۔
سپرنٹنڈنٹ    :توکیاآپ بھی۔ ۔ ۔
ڈاکٹر    :آپ جانتے ہیں  آج تک میں نے کیاکیاہے۔
سپرنٹنڈنٹ    :میں کیاساراشہرجانتاہے۔ ڈاکٹرصاحب۔ آپ نے اس شہر کے بے شمارآدمیوں  کوشفادی ہے۔ اس شہرمیں  کیاآس پاس کے کئی شہروں  میں  آپ سے بڑاڈاکٹر۔ ۔ ۔
ڈاکٹر    :مگراصلیت یہ ہے کہ میں  انسانوں  کے دکھ درد سے ان کی بیماری آزاری سے چاندی بناتارہاہوں  میں  نے انسان کے دکھ درد کی تجارت کی ہے۔
سپرنٹنڈنٹ    :یہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں ؟
ڈاکٹر    :میری بغل میں آئیڈیل فارمیسی کے نام سے دواؤں  کی جودوکان ہے وہ بھی میری ہی ہے آپ جانتے ہیں  کیوں ؟اس لئے کہ میں  اس دوکان کے ذریعے ذخیرہ اندوزی اورنفع بازی کرناچاہتاہوں  اس دوکان کو ہر قسم کی دواؤں  کے لائسنس مل گئے ہیں  اس دوکان کی ساری دوائیں  جعلی ہیں  ان میں  ملاوٹ ہے۔ اسٹرپٹومائی سین میں  کھریامس کرملائی گئی ہے۔ اصلی شیشیاں  خالی کرکے ان شیشیوں  میں ملاوٹ والی دوائیں  انجکشن کی سوئی کے ذریعے داخل کی گئی ہیں ۔ میں  نے اس  بے ایمانی کے دھندے سے جنتاکودھوکادیاہے۔
سپرنٹنڈنٹ    :ناممکن ہے آپ ایسادھرماتمایہ سب نہیں  کرسکتا۔ آپ نے شہرکی دھرم شالابنوائی ہے داؤجی کے مندرکے لئے سب سے بڑادان آپ ہی نے دیاتھا۔ مجھے وشواس نہیں  ہوتا۔
ڈاکٹر    :میں سچ کہتاہوں بھگوان کی سوگندکھاکر کہتاہوں ۔
سپرنٹنڈنٹ    :آپ جانتے ہیں  یہ جرم ہے بہت بڑاجرم ہے۔
ڈاکٹر    :جانتاہوں  اوراس جرم کی سزاپانے کے لئے تمہارے پاس آیاہوں ۔
سپرنٹنڈنٹ    :سوچ لیجئے ڈاکٹرصاحب۔
ڈاکٹر    :اچھی طرح سوچ لیاوشواس کرو۔ ۔ ۔ میں  وہی ڈاکٹرشرماہوں  جس نے ایک ہزارروپیہ لے کرسیٹھ دلی چندکی بیوی کوزہر کے انجکشن لگائے تھے۔ کیونکہ اس کی زندگی کابیمہ ہوچکاتھااورسیٹھ دلی چندمیری مدد سے اسے موت کے گھاٹ اتارکر انشورنس کی ساری رقم وصول کرناچاہتا تھا۔
سپرنٹنڈنٹ    :آپ کیاکہہ رہے ہیں ؟
ڈاکٹر    :جوکچھ کہہ رہاہوں  خداکوحاضر ناظرجان کرکہہ رہاہوں ۔
سپرنٹنڈنٹ    :یہ توسراسرقتل ہے!
ڈاکٹر    :میں نے قتل کیا ہے!
سپرنٹنڈنٹ    :تومجھے آپ کوگرفتار کرناپڑے گا۔
ڈاکٹر    :گرفتارکروضرور کرو!بلکہ مجھے پھانسی پرچڑھادو۔ جب ہی میرا ضمیر تسکین پائے گاجوزندگی جنتاکی سیوامیں  کٹنی چاہئے تھی وہ دھوکااور جعل سازی میں  کٹ گئی۔ کتنے جھوٹے سرٹیفکٹ لکھے۔ کتنے جھوٹے پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں  بنائیں ۔ کتنوں  کوجان بوجھ کر موت کے گھاٹ اتاردیا۔ مجھے پھانسی ہی ہونی چاہئے۔
سپرنٹنڈنٹ    :یہ میرے اختیارمیں نہیں  ہے۔ ۔ ۔ یہ توبتائیے سیٹھ دلی چندکہاں  ہیں ؟
ڈاکٹر    :اس نے خودکشی کرلی۔
سپرنٹنڈنٹ    :چلئے اچھاہی ہوا۔ (گھنٹی بجاتاہے) اردلی! ہتھکڑی لاؤ!
اردلی    :یہ لیجئے حضور!
سپرنٹنڈنٹ    :مجھے بہت افسوس ہے ڈاکٹرشرما(ہتھکڑی پہناتاہے) اردلی! سپاہیوں  کوبھیجوحوالات سے لے جائیں ۔
اردلی    :بہت اچھا۔ حضور!
سپرنٹنڈنٹ    :اوردیکھو۔ ایک سپاہی کوہماری کوٹھی پربھیجو۔ یہ معلوم کرکے آئے کہ میم صاحب مسوری سے آگئیں  یانہیں ۔ وہ اپنے بیٹے نریندر سے ملنے مسوری گئی تھیں ۔ آج آتی ہوں  گی۔
اردلی    :بہت اچھاحضور!
    (ٹیلیفون کی گھنتی بجتی ہے، بجتی رہتی ہے سپرنٹنڈنٹ اس کاجواب دیتاہے۔)
سپرنٹنڈنٹ    :ہیلو!۔ ۔ ۔ بول رہاہوں ۔ ۔ ۔ کیا کہا۔ ۔ ۔ دودھ والے تھانے کوگھیرے کھڑے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟کیاکہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟(ہنستاہے) سزاچاہتے ہیں ۔ دودھ میں  پانی ملانے کی ۔ ۔ ۔ کیاکہا؟۔ ۔ ۔ نہیں  نہیں ۔ ۔ ۔ جیل میں بالکل جگہ نہیں  ہے۔ ۔ ۔ پچاس پچاس جوتے لگاؤاورچھوڑدو۔ (غصے سے ٹیلیفون کاریسیور رکھ دیتاہے) کم بخت سب کے سب اسی مرض میں  مبتلاہیں  سچ بولنے کی بیماری!ہونہہ!!بڑے آئے ایماندارکئیں  کے!
    (باہر سے شورکی آواز آتی ہے۔)
اردلی    :نہیں  جاسکتے!صاحب کاحکم ہے۔
پرنسپل    :مجھے کوئی نہیں  روک سکتا!
اردلی    :نہیں  جانے دوں  گا۔ منع کردیاہے سنتے نہیں ؟
پرنسپل    :جانتاہے کس سے بات کررہاہے؟کالج کے پرنسپل کاراستہ روکتا ہے۔ نالائق!
سپرنٹنڈنٹ    :اندرآنے دو۔ پرنسپل صاحب کواندرآنے دو۔
پرنسپل    :نمستے سپرنٹنڈنٹ صاحب!
سپرنٹنڈنٹ    :معاف کیجئے گاپرنسپل صاحب میرااردلی نرااجڈہے۔ بڑاجنگلی ہے کمبخت۔ آدمی دیکھ کے بات نہیں کرتا۔ میں  توخودآپ کے پاس آنے والاتھا۔
پرنسپل    :لیجئے میں آگیا اورآکیاگیالایاگیاہوں ۔
سپرنٹنڈنٹ    :پرسوں  سے جوواقعات اس شہرمیں  ہورہے ہیں ۔ ان سے میری عقل چکراگئی ہے۔ میں  آپ جیسے کسی عالم فاضل سے یہ پوچھناچاہتاہوں  کہ آخرسچ کیا ہے۔ وہ جومصیبت میں  ڈالے یا انسانون کومصیبت سے نکالے۔
پرنسپل    :یہ میں  کچھ نہیں  جانتاکپتان صاحب۔ میں  توصرف اتناجانتاہوں  کہ ضمیر کے اندرجو کالاناگ چھپارہتاہے۔ آتماکاجوزہر ہے وہی سچ ہے اور آج وہی کالاناگ مجھے آپ کے پاس تک کھینچ لایاہے۔
سپرنٹنڈنٹ    :توکیاآپ بھی؟
پرنسپل    :میں نہیں جانتاآپ کیاکہناچاہتے ہیں ۔ مجھے جاننے کی ضرورت بھی نہیں  ہے۔ میں تویہ بتانے آیاہوں  کہ جسے آپ عالم فاضل کہتے ہیں ۔ علم کااوتار اورگیان کادیوتاجانتے ہیں  وہ ایک فریبی ہے فراڈ ہے!
سپرنٹنڈنٹ    :میں  آپ کامطلب نہیں سمجھا۔
پرنسپل    :آج تک میرے کالج میں جتنے لیکچرررکھے گئے ہیں ۔ سب کے سب میرے رشتے دارہیں  یامیرے کسی رشتے دارکے رشتہ دارہیں ۔ہر جگہ کے لئے ایک سے ایک قابل آدمی نے درخواست دی لیکن کوئی ہماری کسوٹی پرپورانہیں  اترا۔
سپرنٹنڈنٹ    :لیکن اس میں  آپ کاکیاقصورہے۔ تقررسلیکشن کمیٹی کرتی ہے۔
پرنسپل    :اورسلیکشن کمیٹی ہم مقررکرتے ہیں ۔ اس کے ممبروں  میں  ہمیشہ میں  نے ان لوگوں  کورکھاہے جومیری ہاں  میں ہاں  ملاسکیں  جنھیں  آموں  کے زمانے میں  آٹھ دس ٹوکرے آم بجھواسکوں  یاان سے وصول کرسکوں ۔ جن کی کمیٹیوں  میں خودجاکر ان کی ہاں  میں  ہاں  ملاسکوں ۔ ان سب کو میں  نے رشوت سے زیرکررکھاتھا۔ کنبہ پروری اورجعل سازی کیا پاپ نہیں  ہے؟
سپرنٹنڈنٹ    :ضرور ہے ۔ لیکن آپ نے انٹرویوکرکے تقررکئے ہیں ۔
پرنسپل    :انٹرویوبھی فراڈہے جس کولیناہوتاہے۔ اس کے ہرجواب پرپورا بورڈ جھوم جاتاہے۔ میرے کالج کے استاد اس کے نام سے مقالہ لکھتے اور چھپواتے۔ اس کے لئے ریسرچ کاخاکہ تیارکرتے اورکہہ سن کر (Examinar)   سے اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری دلواتے تھے۔ یہی نہیں  ہماری سانٹھ گانٹھ اوپر بورڈ تک رہتی تھی۔ ہم دوسرے تیسرے سال نصاب کی نئی کتاب اپنے ہی ذمے لے لیتے اوربک سیلروں  سے رشوت لے کرپرانی کتاب کی جگہ ان کی کتابیں  نصاب میں  داخل کردی جاتی تھیں  اورہمارے وارے نیارے ہوجاتے تھے۔ کیا آپ کے نزدیک یہ پاپ نہیں  ہے؟
سپرنٹنڈنٹ    :آپ مجھ سے کیاچاہتے ہیں ؟
پرنسپل    :میں آپ سے سزاچاہتاہوں ۔ کپتان صاحب!سخت سے سخت سزا چاہتا ہوں ۔ میں  مجرم ہوں ۔ میں  نے کنبہ پروری نفع خوری اوربے ایمانی ہی نہیں  کی ہے۔ میں  نے قوم کی امانت میں  خیانت کی ہے۔ میں  نے آنے والی نسل کی زندگی بربادکردی ہے۔ انھیں  اپنی سیاست میں  استعمال کرنے کی غرض سے ان کے گروہ بناکرانھیں  غنڈہ گردی سکھائی۔ انھیں  اپنے گروہ کی طاقت بڑھانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ میں  نے انھیں  صرف خودغرضی ہوس اورغنڈہ گردی کی تعلیم دی ہے۔ میں  نے انھیں  گیان کے نورکے بجائے جہالت کااندھیرا ہی دیا ہے۔ کیاقوم مجھے سزانہ دے گی؟مجھے سزادیجئے کپتان صاحب سزا دیجئے؟
سپرنٹنڈنٹ    :سزادینا میرے اختیارمیں  نہیں  ہے۔ میں  صرف آپ کوگرفتار کرسکتا ہوں ۔
پرنسپل    :شکریہ! آپ نے میرے دل کابہت بڑابوجھ دورکردیا!
سپرنٹنڈنٹ    :(گھنٹی بجاتاہے) اردلی! ہتھکڑی لگاکے حوالات لے جاؤ!
اردلی    :جوحکم حضور!
    (پچھلے کمرے سے ہیرالال کی آواز آتی ہے۔)
ہیرالال    :میرے لئے کوئی جگہ خالی ہوئی کپتان صاحب؟
سپرنٹنڈنٹ    :سن رہے ہوہیرالال!غضب خداکاانصاف اور تعلیم ہی پورے سماج میں  سب سے اعلیٰ محکمے تھے۔ ان کایہ حال ہے۔ اے خدا۔ ہے بھگوان!
ہیرالال    :توپھرمیرے لئے کیاحکم ہے؟
سپرنٹنڈنٹ    :بیٹھے رہئے خاموشی سے۔
    (باہر سے کارکاہارن سنائی دیتاہے۔)
***

اؤن لوڈ کریں  

 حصہ اول

     ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

حصہ دوم

      ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں   مشکل؟؟؟

یہاں   تشریف لائیں  ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں   میں   استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں   ہے۔

صفحہ اول