صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
پسر کا داغ
میر انیس
جمع و ترتیب: حسان خان
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
دشمن کو بھی خدا نہ دکھائے پسر کا داغ
دل کو فگار کرتا ہے، لختِ جگر کا داغ
آنکھوں کا نور کھوتا ہے، نورِ نظر کا داغ
مرنا جوان بیٹے کا ہے، عمر بھر کا داغ
یہ حال ابنِ فاطمہ کے دل سے پوچھیے
زخمِ جگر کے درد کو، گھائل سے پوچھیے
جب برچھی کھا کے گُم ہوا، اکبر سا نونہال
فرزندِ فاطمہ کا کہوں کس زباں سے حال
لرزہ تھا جسمِ پاک میں خورشید کی مثال
چلّاتے تھے، شہید ہوا، ہائے میرا لال
تھامے ہوئے کلیجے کو، گھبرائے پھرتے تھے
اک اک قدم پہ، ٹھوکریں کھا کھا کے گرتے تھے
آنکھوں میں اشک، لب پہ فغاں اور دل میں درد
ہاتھوں میں رعشہ، چہرۂ اقدس کا رنگ زرد
صدمے سے ہاتھ پاؤں کبھی گرم، گاہ سرد
مثلِ کماں خمیدہ مگر گیسوؤں پہ گرد
دیکھی جو کوئی لاش تو گھبرا کے گر پڑے
جلدی کبھی چلے، کبھی غش کھا کے گر پڑے
ہر دم پکارتے تھے کہ، اکبر کدھر گئے؟
اے نورِ چشمِ بانوئے بے پر، کدھر گئے؟
مرتا ہے باپ اے مرے دلبر کدھر گئے؟
آواز دو، شبیہِ پیمبر کدھر گئے؟
اے میرے شیر کیا کسی جنگل میں چھپ رہے
اے میرے چاند کون سے بادل میں چھپ رہے
٭٭٭