صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں



پہلی صف اور دوسری کہانیاں

عمر احمد بنگش


ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پیش لفظ

لالے  عمر کی آواز پہلے بار’ گوگل  ہینگ آؤٹ‘ پر ہی سنی تھی۔ متانت سنجیدگی،ٹھہراؤ بہرحال ایک وصف ہے ۔ آواز سن کر  محسوس ہوا کہ  سگریٹ  انگلیوں میں سلگ رہا ہے اور خیالات دماغ میں ابل رہے ہیں۔   بلاگنے کا چسکا لگا تو جن پندرہ بیس بلاگروں سے متاثر ہو کر "پانچوں سواروں "میں شامل ہوا ان میں ایک لالا بھی ہے ۔  اندر سے نرا  پینڈو،  لکھائی کا انداز ایسا کہ لسی کی گھڑوی میں مکھن کا پیڑا تیر رہا ہو، بندے کا جی چاہے ہاتھ بڑھا کر  اپنی  روٹی پر رکھ لے ۔  اس کے خیالات کا  بہاؤاپنا اپنا سا  ہے ، اس کی تحریر اجنبی نہیں ہوتی، اس کے الفاظ میں غیریت نہیں جھلکتی۔  شاید زہنی ہم آہنگی  کہہ سکتے  یا اس کے الفاظ میں موجود دھرتی کا اپنا پن۔ لیکن کئی بار اس کی تحریر کو پڑھ کر لگا کہ یہ میں نے کہا، میں نے لکھا، یہ میں نے سوچا  اور اس سے بڑھ کر کسی تحریر کی خوبی کیا ہو سکتی کہ وہ قاری کے ساتھ تعلق استوار کر لے ۔ وہ سیدھے سادھے ، سچے کھرے انداز میں بات کہہ دیتا ہے ۔  کبھی کوزہ گر کے سامنے رکھی مٹی کی خوشبو کا احساس دلاتے ،کبھی کنہار کنارے  دریا کی لہروں سے روشناس کراتے ، کبھی درختوں کی ڈالیوں میں جھولتے ، کبھی تھل کے اصیل گاؤں کا نقشہ کھینچتے ۔ اور کبھی"  بوئے حرم " کی تنگ گلیوں میں جھجکتے ڈرتے گزرتے ہوئے  لالا  سماج کے دو رخے مونہوں پر طمانچے رسید کرتا ہے ۔ وہ سوچوں کو نچوڑ کر افسانہ گری کرتا  رہتا ہے ۔ عمر کسی بوڑھے   سمدے کسان  کی طرح تپتی دوپہر میں شیشمی چھاؤں تلے حقہ گُڑگڑاتے داستان سرائی کر تا ہے ، اور قاری، لڑکے بالوں کے جیسے محویت سے  سنتا جاتا ہے ۔ وہ الفاظ کو کتابوں سے نہیں نکالتا بلکہ  مٹی میں سے نتھارتا ہے ۔ دھرتی کی کوکھ میں  سوچ کے بیج بوتا ہے تو تحریر کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔  سجے کو دکھا کر کھبے چپیڑ مارنے کا ہنر اسے بخوبی آتا ہے ۔  کہاں،کس موڑ پر کب قاری کو چونکانا ہے ، کب ٹہوکا دینا ہے ، کب سوچوں کے بھنور میں دھکیلنا ہے اس کے انداز تحریر میں بہتیرے شامل ہے ۔ انسانی مجبوریوں کو "حلال رزق" میں بیان کرنا، معاشرتی منافقت کو "پہلی صف"  میں کھڑا کرنا اس کا خاصہ ہے ۔ وہ انسانی نفسیات کا خلاصہ بخوبی کرتا ہے لیکن اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر۔ "کنواں کود لوں؟" کا سوال  جہاں ہجر و فراق کی ٹیس محسوس کراتا ہے وہیں کچی عمر کی بے باکیوں  اور نتیجتا  ھولناکیوں کو ایسے میٹھے انداز میں بیان کرتا ہے کہ کہیں سے وعظ کا گمان تک نہیں گزرتا۔ "تئیس میل" پڑھتے ہوئے یقین ہو چلتا ہے کہ بس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بھی لالا بیٹھا ہوا "فرنٹ مرر" سے سواریوں کی حرکات و سکنات کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھ رہا اور کنڈیکٹری بھی لالا کر رہا، قاری کسی آخری نشست پر دبک کر بیٹھا سارے منظر کو حیرانی سے دیکھتا جاتا ہے ۔ "ریل تال" اور "ناٹکا" میں اس   کے ڈائیلاگ نے جان ڈال دی ہے ۔ خود پڑھئے اور سر دھنئے ۔

لالے نے  لکھنا کب شروع کیا معلوم نہیں۔  لیکن دیر سے لکھا یہ احساس ہے ،  اس کی تحریر کو اب تک پہچانا  جا چکا ہوتا۔ شاید اسے اپنا  آپ پہچاننے میں تاخیر ہو ھئی اور اس تاخیر سے بے شک  کچھ نہ کچھ نقصان بھی ہوا ہے ۔ اس وقت گریزی کی بنا کبھی کبھار اس کا قلم  کوئی فقرہ کہتے ہانپ جاتا، کانپ جاتا۔ شاید وہ کھل کر گالی نہیں دینا چاہتا  یا لاشعوری طور پر کسی بھی قاری  کو دکھیارا کرنا اس  کے بس میں نہیں۔ اس کا ازالہ یہی کہ عمر لکھے ، اچھا لکھے اور بہت لکھے تا کہ اس حساس دل کی دھڑکنوں اور پُر خیال زہن کی سوچوں سے قارئینِ  اردو ادب کو بہترین مل سکے ۔


عمران اسلم

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول