صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
پتھر نہیں رو سکتا
معین الدین
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
میرے بچے کو لے آؤ
یہ ہے جو ڈھیر مٹی کا
کبھی میرا گھروندا تھا
یہی جو فرش لگتا ہے
یہ میرے سر کی چھت تھا
اسی گھر میں کبھی میرا، جگر گوشہ ہمکتا تھا
تھا جس کا چاند سا چہرا ، میرا جیون میری دنیا
تھا جس کا چاند سا چہرا، میرا حاصل ، میرا مایہ
میرے پہلو سے لگ کر توتلا کر بولنے والا
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھیمی سی ہنسی سے
میرے کانوں میں آ کر ،بول کر،رس گھولنے والا
جو میری گود سے اترا تو بس پھولوں کی چادر پہ
کہ جس کے جسم کو کل تک نہیں چھوا تھا مٹی نے
میرا جیون سہارا تھا
میرا لختِ جگر کل تک اسی آنگن کا تارا تھا
جسے ملبے نے یوں ڈھانپا
کہ نہ ہی کھیل باقی ہے نہ کوئی کھیلنے والا
اُدھر جاؤ ، ارے لوگو!
میرے زخموں کو نہ دیکھو
مجھے مرہم نہ لگاؤ
میرے بچے کو لے آؤ
وہ میرے بِن رہا کچھ دیر تو پھر روٹھ جائے گا
اُسے کیسے مناؤں گی؟
اندھیرے میں اگر تنہا، ابھی وہ خود کو پائے گا
وہ بالکل ٹوٹ جائے گا
اُدھر جاؤ ! ارے لوگو
میرے بچے کو لے آؤ
اسی ملبے تلے دیکھو
اسی مٹی کی چادر میں
کہیں وہ سو رہا ہوگا
نہیں! وہ یوں اکیلے بن مرے تو سو نہیں سکتا
اسی مٹی کی چادر میں
کسی شہتیر کے نیچے
وہ میرا نام لے لے کر
یقیناً رو رہا ہوگا
یا رو کے تھک چکا ہوگا
کہیں وہ سو رہا ہوگا
ادھر آؤ ارے لوگو
میری ممتا کو بہلاؤ
میرے بچے کو لے آؤ
٭٭٭