صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
پسِ دیوارِ گریہ
شہناز نبیؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
کچھ ایسی راتیں
یہ سچ نہیں ہے کہ رات بھر ہم
تمہاری یادوں کی کہکشاں سے گذر رہے ہیں
تمہارا لہجہ تو گونجتا ہے سماعتوں میں
تمہاری سانسیں بھٹکتی رہتی ہیں چار جانب
تمہاری آنکھوں کی گرمیاں ہیں نسوں میں رقصاں
مگر نہ جانے
یہ کس کی چیخیں تمہارے لہجے کی نرمیوں پر ہوئی ہیں حاوی
یہ کس کی آہیں تمہاری سانسوں کے زیر و بم سے الجھ رہی ہیں
یہ خوف و دہشت بھری نگاہیں
یہ خاک و خوں کا عجیب میلہ
یہ سر سے چھنتی ہوئیں ردائیں
یہ پارہ دل
یہ جسم ریزہ
ہر ایک لیلیٰ سے جا کے کہہ دو
کہ لام پر جا چکا ہے مجنوں
ہر ایک شیریں کو یہ بتا دو
کہ بیستوں سے چھلکتا ہے خوں
ہمارے گھر کے سنہرے نقشے نگل رہے ہیں کٹھور صحرا
ہمارے سجدے مٹا رہا ہے سمندروں کا سیاہ پانی
شکست و ذلت
نہ فتح و نصرت
ہاں ، رزم اول
کہ رزم آخر
تمہاری یادوں کے درمیاں اب
کچھ ایسی راتیں بھی آ گئی ہیں
جو سوچتی ہیں سوا تمہارے
٭٭٭