صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
پاسنگ
اور دوسری کہانیاں
مہر النسا پرویز
ترجمہ: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
پاسنگ
آج صبح سے ہی بڑی اومس تھی، ہوا بند سی تھی۔ پتے تک ذرا نہیں ہل رہے تھے۔ پڈک پرندے کی آواز ساری سونی فضا میں گونج رہی تھی۔ صبح سے ہی پسینے کی دھار بہنے لگی تھی۔ گرمی تیز ہو گئی تھی۔ دوپٹے سے پسینہ پونچھتے پونچھتے کنی کا دوپٹہ پوری طرح گیلا ہو گیا تھا۔ ماحول کی اومس کو دیکھ کر لگنے لگا تھا جیسے مانسون بس آنے ہی والا ہے۔ ویسے اس بار اچھی بارش کی امید تھی، کیونکہ پوری گرمی کے دنوں میں ایک بار بھی پانی نہیں آیا تھا۔ کنی کبوتروں کے دڑبوں کے پاس کھڑی ننھے ننھے ان کے نئے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔ کبوتر کے بچے بھی اسے دیکھ اپنی چونچ کھول رہے تھے جیسے چگا مانگ رہے ہوں۔ باہر دادی کے پاس کوئی آیا تھا، بات چیت کی آواز پورے گھر کو الانگ کر پیچھے تک جا رہی تھی۔ اتنی صبح کون آیا ہے؟
کنی بیٹی، کنی، دادی نے پکارا۔
دادی
کی ہانک پر سرپٹ دوڑتے تمام کمروں کو پھلانگتی وہ باہر آ گئی۔ باہر رشید
چچا بیٹھے تھے۔ صغریٰ بی جھاڑو سے گھر صاف کر رہی تھیں۔ رشید چچا کے
کاندھے پر مکہ مدینہ کا گمچھا رکھا تھا۔ اس کا مطلب تھا مسجد سے ادھر ہی آ
رہے تھے۔ رشید چچا کافی خوش نظر آ رہے تھے۔ ایک لال پڑیا میں سونے کی وجٹی
رکھی تھی، اسے دادی کو دکھا رہے تھے۔ وجٹی بڑی خوبصورت تھی، اس میں لال
نگینے جڑے تھے۔
بڑی اچھی بنی ہے، دادی نے وجٹی
دیکھ کر لوٹاتے ہوئے کہا، اب جو بھی دینا چڑھانا ہو رشید، تم ہی کرو۔ میں
کہاں سے لاؤں؟ میرے پاس تھوڑے سے زیورات ہیں وہ میں نے کنی کے لئے رکھے
ہیں۔ سونے کی گیہوں مالا، موہن مالا، کندن کا گلو بند وہ تو سارے کنی کی
ماں کے پاس ہی رہ گئے ہیں۔ اپنا چندن ہار تو میں کب کا فروخت کر چکی ہوں۔
بس ایک پانچ تولے کی چین اور جھمکا ہی بانو کو دے پاؤں گی۔
خالہ،
تمہیں اتنے سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنا دے رہی ہو، یہی بہت زیادہ ہے۔
میں کون تم سے کچھ کہہ رہا ہوں۔ اب سونے کا بھاؤ دیکھو وہ بھی بڑھ رہا ہے۔
پہلے جواہرات کی قیمت آنکی جاتی تھی۔ سونے کو کون پوچھتا تھا؟ پر اب دیکھو
جواہرات غائب ہی ہوتے جا رہے ہیں۔
جب سے انگریزوں
کی حکومت ہوئی تھی، تب سے ہیرا، نیلم، لال، پکھراج دیکھنے کو آنکھ ترس
گئی۔ سارے جواہرات گوری میموں کو ملاقات میں دے دی گئی ہوں ایسا لگتا ہے۔
انگریز سارے قیمتی جواہرات اپنے ملک لے گئے ہیں۔ کانوں پر ان کا حکم چلتا
تھا۔ وہ مالک تھے اور ہم لوگ صرف مزدور بن کر رہ گئے تھے۔ جب سے کنی کے
دادا مرے ان کے ساتھ جیسے اس گھر کے سارے ہیرے جواہرات بھی قبر میں دفن ہو
گئے۔ سب خواب سا لگتا ہے۔ وہ اتنے پارکھی تھے کہ دور سے ہی ایک نظر میں
ہیرے کی قیمت اک دیتے تھے۔ اب تو سونا بھی خریدے کتنے برس گزر گئے۔ ہاں،
کیا انداز چل رہا ہے سونے کا؟
اقتباس
٭٭٭