صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


پردہ

محمد بن صالح العثیمین

ترجمہ
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

چہرے کے پردے کا وجوب

ہر مسلمان کو چاہیے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کا پردہ کرنا اور منہ ڈھانپنا فرض ہے۔ اس کی فرضیت کے دلائل رب العزت کی کتاب عظیم اور نبی رحمت ﷺ کی سنت مطہرہ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اجتہاد اور درست فقہی قیاس بھی اسی کے متقاضی ہیں۔


قرآن حکیم سے چند دلائل


پہلی دلیل

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُو۟لِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا۟ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿31﴾

ترجمہ: اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے اور اے مسلمانو تم سب الله کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ(سورۃ النور، آیت 31)

یہ آیت مبارکہ چہرے کے پردے کے وجوب پر مندرجہ ذیل طریقوں سے دلالت کرتی ہے:

(1)اللہ عزوجل نے مومن عورتوں کو اپنی عصمت کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور عصمت کی حفاظت کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام وسائل و ذرائع اختیار کیے جائیں جو اس مقصد کے حصول میں مددگار ہو سکتے ہیں اور ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ چہرے کا پردہ عصمت کی حفاظت کے منجملہ وسائل میں سے ہے کیونکہ چہرہ کھلا رکھنا غیر محرم مردوں کے لیے اس کی طرف دیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور مردوں کو اس کے خدوخال کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے جس سے بات میل ملاقات بلکہ ناجائز تعلقات تک جا پہنچتی ہے۔ حدیث نبوی ہے:

(العینان تزنیان وزناھما النظر)

"آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا (ناجائز) دیکھا ہے۔ "(مسند احمد:2/343)

پھر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے زنا کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں فرمایا:

(ترجمہ)شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ (مسند احمد: 2/343)

لہذا جب چہرے کا پردہ حفظ ناموس و عصمت کا ذریعہ ٹھہرا تو وہ بھی اس طرح فرض ہو گا جس طرح کہ حفظ ناموس و عصمت فرض ہے۔ اُن وسائل و ذرائع کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو ان مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔

(2)اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:

وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ

ترجمہ: "اور وہ اپنے گریبانوں پر ڈوپٹے ڈال لیا کریں۔ "(سورۃ النور، آیت 31)

خمار (جس کی جمع خمر ہے ) اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عورت اپنا سر ڈھانپنے کے لیے اوڑھتی ہے، مثلاً برقعے کا نقاب وغیرہ۔ جب عورت کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے سینے پر دوپٹہ ڈال کر رکھے تو چہرہ ڈھانپنا بھی فرض ہو گا کیونکہ یا تو چہرہ لازما اس حکم میں داخل ہو جاتا ہے یا پھر قیاس صحیح اس کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب گردن و سینہ کو ڈھانپنا فرض ہے تو چہرے کے پردے کی فرضیت تو بدرجہ اولیٰ ہونی چاہیے کیونکہ وہی خوبصورتی کا مظہر اور فتنے کا موجب ہے۔ اور ظاہری حسن کے متلاشی صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں۔ چہرہ خوبصورت ہو تو باقی اعضاء کو زیادہ اہمیت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ جب کہا جاتا ہے یہ ہے کہ فلاں خوبصورت ہے تو اس سے بھی چہرے کا جمال ہی مراد ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ چہرے کا حسن و جمال ہی پوچھتے اور بتانے والوں کی گفتگو کا محور ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں کیسے ممکن ہے کہ حکمت پر مبنی شریعت سینہ و گردن کے پردے کا تو حکم دے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کی رخصت دے۔

(3)اللہ تعالیٰ نے زینت کے اظہار سے بالکل منع کر دیا ہے۔ اس حکم سے صرف وہ زینت مستثنی ہے جس کے اظہار سے کوئی چارہ کار ہی نہیں، مثلاً بیرونی لباس، اسی لیے قرآن نے (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "سوائے اس زینت کے جو از خود ظاہر ہو جائے"کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے، یوں نہیں فرمایا: (الا ما اظھرن منھا) "سوائے اس زینت کے جسے عورتیں ظاہر کریں۔ "

(4) پھر اسی آیت میں زینت کے اظہار سے دوبارہ منع فرمایا اور بتایا کہ صرف ان افراد کے سامنے زینت ظاہر کی جا سکتی ہے جنہیں مستثنی کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے مقام پر مذکورہ زینت پلے مقام پر مذکورہ زینت سے مختلف اور علیحدہ ہے۔ پہلے مقام پر اس زینت کا حکم بتایا گیا ہے جو ہر ایک کے لیے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا پردہ ممکن نہیں جب کہ دوسرے مقام پر مخفی زیبائش مراد ہے، یعنی جس کے ذریعے سے عورت خود کو مزین کرتی ہے۔ اگر اس آرائش و زیبائش کا اظہار بھی ہر ایک کے سامنے جائزہ ہو تو پہلی زینت کے اظہار کی عام اجازت اور دوسری زینت کے اظہار کے حکم سے بعض افراد کے استثنا کا کوئی خاص فائدہ نہیں رہ جاتا۔

طفیلی قسم کے افراد جو صرف کھانا کھانے کے لیے کسی کے گھر میں رہتے ہوں اور ان میں صنفی میلان ختم ہو چکا ہے، مردانہ اوصاف سے محروم خدام اور وہ نابالغ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتیں سمجھ نہیں پاتے تو ایسے افراد کے سامنے اللہ تعالیٰ نے مخفی زینت کو کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے دو امور ثابت ہوئے:

مذکورہ بالا دو قسم کے افراد کے سوا مخفی زیبائش کو کسی کے سامنے کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔

بلاشبہ پردے کے حکم کا دارومدار اور اس کے واجب ہونے کی علت عورت کی طرف دیکھ کر (مردوں کا) فتنے میں مبتلا اور وارفتگی کا شکار ہو جانے کا اندیشہ ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ چہرہ ہی سب سے زیادہ حسن کا مرکز اور فتنے کا مقام ہوتا ہے، لہذا اس کا ڈھانپنا ضروری ہو گا تاکہ مرد حضرات بشری تقاضوں کے باعث کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

(5)فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ

ترجمہ: اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے (سورۃ النور:آیت 31)

یعنی عورت اس انداز سے نہ چلے کہ معلوم ہو کہ وہ پازیب وغیرہ پہنے ہوئے ہے جس سے وہ اپنے خاوند کے لیے آراستہ ہوتی ہے۔ جب عورت کو زمین پر شدت سے پاؤں مارنے سے منع کر دیا گیا، مبادا غیر محرم مرد اس کے زیور کی جھنکار ہی سے فتنے میں پڑ جائیں تو چہرہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟

غور فرمائیے!فتنے میں پڑنے اور بہک جانے کا امکان کہاں زیادہ ہوتا ہے۔ کیا اس صورت میں کہ ایک آدمی کسی عورت کے پاؤں میں پڑی پازیب کی جھنکار سنتا ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ عورت جوان ہے یا عمر رسیدہ، حسین و جمیل ہے یا بدصورت یا اس صورت میں کہ ایک مرد کسی دوشیزہ کا کھلا چہرہ دیکھے جو حسن و زیبائی سے بھرپور ہو اور مشاطگی نے اس کے فتنے کو دو چند کہ ہر دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے؟ہر با شعور انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دونوں میں سے کون سی زینت زیادہ فتنے کا باعث اور مستور و مخفی رہنے کی زیادہ حقدار ہے۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول