صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


پردہ
 (یا حجاب)

مرتب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

ابتدائیہ 

۲۰۰۶ء؁ ماہ اکتوبر کے  اواخر میں  ایک بار پھر پر دے  کے  مسئلہ پر شبانہ اعظمی کے  انگلینڈ دورہ پر لی گئی انٹر ویو پر میڈیا کی جانب سے  اخبار و رسائل کے  جانب سے  خوب گرما گرم بحث ہو ئی، بحث اس بات پر ہوئی کہ اسلام میں  عورت کو بغیر حجاب کے  گھومنے او ر مردوں  کے  سامنے  آنے  کی اجازت ہے  یا نہیں ؟ یہ سوال جب شبانہ اعظمی صاحبہ سے  کیا گیا تو اُنھوں  نے  بغیر علم اور بغیر تحقیق کے  بر جستہ پر یس والوں  سے  کہا کہ اسلام میں  قرآن و حدیث میں  کہیں  ایسا ہے  ہی نہیں  عورت کو پردہ کرنا لازم ہو جو عورت پردہ کرنا چاہے  سو وہ کرے او ر جو نہ کرنا چاہے  وہ پردہ کرے۔

پردہ یعنی حجاب اگر اُس کا ترجمہ اور عام فہم انداز میں  کرنا چاہیں  تو اسطرح کر سکتے  ہیں  حجاب کہتے  ہیں  ’آڑ‘ کو کوئی آدمی کسی شخص سے  چھپانا چاہتا ہے  تو وہ کسی چیز کا آڑ لیتا ہے  اور وہ اس آڑ کے  پیچھے  اپنے  آپ چھپا لیتا ہے  ٹھیک اسی طرح سے  ایک عورت اپنے  حسن و خوبصورتی اور اپنی نسوانی کشش کو پردے  کے  ذریعہ چھپاتی ہے  کہ اس سے  فتنہ و فساد برپا نا ہو اور نہ ہی امانت میں  خیانت ہو۔ پردہ اور بے  پردگی کا تجرباتی و تاریخی تجزیہ تو بعد میں  کریں گے  سب سے  پہلے  اُن باتوں  کو پہلے  ذکر کر دیں  کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں  جن کی بنیاد پر تسابل پسند حضرات کو چور دروازے او ر تحریف معنوی کی ضرورت پڑی۔


پہلی بات اور اہم بات


 قرآن مجید کے  اندر پردے  سے  متعلق دو آیتیں  بطور خاص مذکور ہیں  پہلی آیت’’ سورہ نور کی ہے۔ ولایبدین زنتھن الا ماظہر منہا‘‘ ترجمعہ (اور عورتیں  اپنی زینت ظاہر نہ ہونے  دیں  مگر بجز اسکے   جو ظاہر ہو جائے ) اسکی تفسیر میں  ’’ما ظہر‘‘ سے  حضرت ابن عمرؓ اور  دیگر صحابہ کرام اور اسلی تائید میں  ابو داؤد شریف ترمذی شریف کی روایت کے  ساتھ قرطبی ۱۲!ص ۲۲۰ کو بھی پیش فرما کر یہ لکھا ہے  اس سے  مراد چہرہ اور ہتھیلی ہے۔

پہلی آیت پر تنقیدی تبصرہ اور ایک اہم بات اب  رہی یہ بات کہ اسکی تفسیر کو دیگر علماء کرام کیوں  قبول نہیں  کرتے او ر اسے  قبول فرما کر چہرہ اور ہتھیلی کو خارج حجاب نہیں  مانتے  تو  اس سلسلہ میں  پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح مذکورہ باتوں  کو سامنے  رکھکر چہرہ اور ہاتھ کو خارج حجاب کچھ صحابہ کرام نے  مانا ہے   تو بہت سارے  صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین یہ تفسیر بھی کی ہے کہ چہرہ اور ہتھیلی کو  خارج حجاب نہیں  بلکہ داخل حجاب ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جن لوگوں  نے  یہ تفسیر کی ہے کہ چہرہ اور ہتھیلی خارج حجاب ہے  ان روایات پر مختلف انداز میں  کلام ہے۔


آیت کا مناسب مفہوم


’’ ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا‘‘ کی تفسیر کر تے  ہوئے  ج احادیث و رتفسیروں  کو   پیش کیا گیا ہے او ر پھر اس پر جو کلام کیا گیا ہے  وہ اپنی جگہ قابل فہم بھی ہے او ر قابل عمل بھی لیکن اسکے  علاوہ قرآن مجید کی مذکورہ ’’ ولا یبدین زینتھن الا ماظھر منھا‘‘ کے  ظاہری مفہوم کو دیکھیں  تو صاف طور پر یہ پتہ چلتا  ہے کہ عورت اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے  دے  جب یہ اہتمام ہو جائے  یعنی مکمل پردے  کا اہتمام کرنے  کے  بعد اگر کوئی زینت کے  اعضاء ظاہر ہو جائے  تو جو اعضاء کے  از خود بلا اختیار و بلا نیت کے  ظاہر ہو گئے  اس پر کسی قسم کا مواخذہ نہیں  چنانچہ اس مفہوم کی تائید قرآن کے ’’ جملہ ما ظہر‘‘ سے  معلوم ہوتی ہے او ر ماظہر  کا ترجمہ زمانہ ماضی یعنیPast tense کا ہی زمانہ استقبال یعنی Future tense کا ہے۔

اہل علم کے  لئے  نوٹ والی بات


 چہرہ کھولنے او ر ہتھیلی کھولنے   کے  سلسلہ میں  جو دلائل پیش کے  جاتے  ہیں  ان میں  بہت سارے  عوام کے  ساتھ اہل علم بھی چند وجہوں  سے  غلط فہمی کا شکار ہو جاتے  ہیں۔

۱)     چہرہ کھولنے  کی وہ روایات پیش کرتے  ہیں  جبکہ پردہ کا حکم آیا ہی نہیں  تھا اور پردے  کا حکم زمانہ نبوت کے  پندرہ سال بعد نازل ہوا ہے  اب طاہر سی بات ہے کہ پندرہ سال ایک بڑا عصر ہے  جس میں  کی روایت کو پیش کیا گیا ہو گا۔

۲)     یا تو چہرہ کھولنے  دلیل خاص دنوں  یعنی ایام حج کے  متعلق کر دیا حالانکہ ایام حج کا مسلۂ عام دنوں  سے  الگ ہوتا ہے۔

۳)     ستر عورت اور حجاب کے  درمیان فرق نہ کرنے کی وجہ سے  ہوتا ہے  حالانکہ ’’ستر‘‘ او ر  ’’ حجاب‘‘ ان دونوں  میں  زمین آسمان کا فرق ہے  اسلئے  کے   ستر کہتے  ہیں  اُسکو جسکا اظہار علاوہ شوہر کے  محرموں کے  سامنے  بھی جائز نہیں او ر حجاب کہتے  ہیں  اُس  چیز کو جسکا ستر کے  علاوہ اعضاء  جبر ہاتھ پیر وغیرہ ہے۔ یہاں  تک تو قرآن مجید کی سورہ نور والی آیت کا ترجمہ کا مطلب  حقیقی مطلب لو بیان کیا گیا۔


قرآن مجید کی حجاب والی دوسری آیت


 چہرہ اور ہتھیلی کو چھپانے  کے  متعلق اور مکمل حجاب میں  اپنے  سے  متعلق واضح اور  دو ٹوک آیت سورہ      کی ’’ یا ایھا النبی قل لازواجک و بنا تک ونساء المومنیں ید نین علیھن من جلا بیبھنّ‘‘ ہے  اس آیت کی بہت ساری تفسیریں  اس انداز میں  کی گئی کہ چہرہ اور ہتھیلی بھی حجاب میں   داخل ہے  جیسا کہ  ’’ در منثور‘‘ میں   ہے کہ حضرات صحابیات کرا م رضوان اللہ تعالی علیہ اجمعین اپنے  چہرہ کو چھپا کر دیوار کے  قریب سے  چلیں۔

مفسرین کی تفسیریں


 امام جریر نے  جامعہ البیان میں  ابو بکر نے  احکام القرآن میں  علامہ زمخشری نے  الکشاف میں  قاضی بیضاوی نے  تفسیری بیضاوی میں  یہی مطلب بیان  کیا ہے  کہ عورتیں  اپنے  سروں  پر چادر ڈال کر رکھیں او ر اس سلسلہ میں  صاحب روح المعانی نہ بھی یہی لکھا ہی کہ عورتیں  زمانہ جاہلیت میں  چہرہ کھولتی  نہیں  مگر ید نین علیھن من جلبابھن و الی آیت کے  بعد حکم چہرہ چھپانے  کا ہوا۔


ائمہ مجتہدین اور جمہور فقہا  کیا کہتے  ہیں


ائمہ مجتہدین، جمہور فقہا کو امام شافعی کے  اکثر ائمہ اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے  ہیں  کہ چہرہ چھپانا فرض اور لازم ہے او ر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  کہ چہرہ ستر عورت میں  تو نہیں  مگر حجاب میں  ضرور داخل ہے  یہاں  تک کی جو بات تھی و اس کا تعلق قرآن اور حدیث اور فقہی سوال و جواب کا تھا اور اس میں  یہ وضاحت ہو گی کہ بہر صورت قرآن و حدیث کی روشنی میں  چہرہ کا پردہ کرنا فرض لازم اور ابدی امر ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭


ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول