صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
پانچ خاتون ادباء
فضہ پروین
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ہاجرہ مسرور :اب نہ دنیا میں آئیں گے یہ لوگ (اقتباس)
15ستمبر2012کو کاتب تقدیر نے اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھما دیا اس میں ہاجرہ مسرور کا نام بھی رقم تھا۔ ہاجرہ مسرور کی وفات سے علمی و ادبی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ وہ گزشتہ سات عشروں سے پرورش لوح و قلم میں مصروف تھیں۔ 17۔ جنوری 1930کو لکھنو میں جنم لینے والی اس ادیبہ نے پوری دنیا میں اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اردو کے افسانوی ادب کو ہاجرہ مسرور نے زندگی کی حقیقی معنویت سے آشنا کیا۔ تانیثیت (Feminism)کی علم بردار اس عظیم ادیبہ نے خواتین کے مسائل پر جس خلوص اور درد مندی سے لکھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دنیا بھر کی خواتین کو معاشرتی، سماجی، سیاسی، قانونی اور معاشی شعبوں میں ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے ہاجرہ مسرور نے جو صبر آزما جدو جہد کی وہ تاریخ ادب میں نمایاں حروف میں لکھی جائے گی۔ ان کی حقیقت نگاری اور فطرت نگاری نے انھیں جس بلند ادبی منصب پر فائز کیا اس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں۔ زندگی کے کٹھن مسائل کوطلسم خواب و خیال سے نکال کر جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے اور حریت فکر کا علم بلند رکھنے کی روش اپنانے والی اس یگانۂ روزگار افسانہ نگار نے جو طرز فغاں اپنائی وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات تھا۔ انھوں نے اپنے اسلوب کے اعجاز سے الفاظ کو زندگی کی حقیقی معنویت اور پیرایۂ اظہار کے حروف کو صداقت سے مالا مال کر دیا۔ ہاجرہ مسرور کی وفات اردو کے افسانوی ادب کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔
غم سے بھرتا نہیں دل ناشاد کس سے خالی ہوا جہاں آباد
ہاجرہ مسرور کا تعلق لکھنؤ کے ایک معزز اور ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر ظہور احمد خان آزادی سے قبل برطانوی فوج میں ملازم تھے۔ وہ برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے۔ شعبہ طب میں ان کی خدمات کا ایک عالم معترف تھا۔ زندگی کی حیات آفریں اقدار سے محبت کرنے والے اور سسکتی ہوئی دکھی انسانیت کو زندگی کی نوید سنانے والے اس مسیحا صفت معالج کی ذات پورے معاشرے کے لیے فیض رساں تھی۔ تقدیر کے فیصلے نرالے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جن کا وجود پوری انسانیت کے لیے دستگیری کا امین ہوتا ہے، جب ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو ان کی یادیں سوہان روح بن جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ظہور احمد خان کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا۔ اپنی پانچ کم سن بچیوں اور ایک بیٹے کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وہ دل کے اچانک دورے کے باعث عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے۔ ہاجرہ مسرور کی والدہ نے بڑے کٹھن حالات میں اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔
٭٭٭