صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
پانچ کہانیاں
شہناز خانم عابدی
جمع و ترتیب:ارشد خالد، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
گلی۔ اقتباس
دادو سے لاڑکانہ وہ جب اپنی رشتے کی ماسی کے گھر رہنے آ ئی تو اس کا پہلا مسئلہ یہ تھا کہ اسے ہر روز شام سے پہلے مندر جانا ہوتا تھا۔ اس نے ایک منت مانی ہوئی تھی۔ اسے اپنے گھر میں تو کوئی نہ کوئی مندر جانے کے لئے مل جاتا تھا۔ ماسی کے گھر میں اسے مندر جانے کے لئے کوئی ساتھی نہیں مل رہی تھی۔ ماسی کے گھر کے لوگ تو تھے ہی مندر جانے کے چور، لیکن پا س پڑوس کی عورتیں بھی روز مندر جانے کی قائل نہیں تھیں۔ منگل کے دن بھی نہیں۔ اتوار کے دن البتہ عورتیں اور بچے گروہ در گروہ مندر کے لئے نکل جاتے۔ ماسی نے اسے مندر کا جانے راستہ بتا دیا تھا۔ پہلے دن ہی اسے وہ راستہ بہت لمبا لگا اور بہت تھکا دینے والا بھی۔ اس نے سوچا ممکن ہے تنہا چلنے کی وجہ سے ایسا لگا ہو۔ اس نے گھر کے لوگوں سے بات کی تو پتہ چلا مندر جانے لئے ایک ’ شارٹ کٹ ‘ بھی ہے۔ جس سے راستہ ایک تہائی سے بھی کم ہو جاتا ہے۔ جب اس نے پوچھا کہ ماسی نے مجھے وہ راستہ کیوں نہیں بتا یا تو سب نے یہی کہا کہ وہ راستہ اکیلی لڑکی کے لئے مناسب نہیں ہے کیونکہ وہ ایک لمبی پیچدار، نیم تاریک، نیم روشن گلی ہے۔ وہ گلی بے حد تنگ بھی ہے۔ دو آدمی ساتھ ساتھ چل کر بمشکل گزر سکتے ہیں۔
دوسرے دن جب وہ
گھر سے نکلی تو اس کی کھوجی طبیعت نے اسے گلی کی تلاش پر مجبور کر دیا۔
بہت جلد وہ گلی کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ جیسے ہی وہ گلی میں
داخل ہو کر چند قدم چلی تو اس پر عجیب سا خوف طاری ہو گیا۔ وہ الٹے پاؤں
پلٹ گئی اور ماسی کے بتائے ہوئے راستے سے مندر چلی گئی۔ مندر سے واپسی پر
اس نے گھر کے لوگوں سے گلی کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ کسی نے کچھ بتایا کسی
نے کچھ۔ ۔ ۔ سب کی باتوں کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ وہ گلی محفوظ نہیں ہے۔
اس نے کسی کو یہ نہیں بتایا کہ وہ گلی کے اندر جھانک چکی ہے۔ در اصل وہ
آسیب اور آتما پر زیادہ یقین نہیں رکھتے ہوئے بھی ان سے ڈرتی تھی۔ اس نے
ایک بار پھر ماسی سے گلی کی بات چھیڑی اور اس مرتبہ صاف صاف پوچھا۔ ’’
ماسی گلی میں کسی آتما واتما یا آسیب وغیرہ کا چکر تو نہیں ہے۔
٭٭٭