صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
پلکوں کی منڈیروں پر
ضیا ضمیر
جمع و ترتیب اور دیوناگری سے اردو روپ: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
انا کی چادر اتار پھینکے محبتوں کے چلن میں آئے
کبھی تو خود کو بیان کرنے تو یار میری شرن میں آئے
کبھی تو آئے وہ ایک لمحہ کہ فرق کوئی رہے نہ ہم میں
ترے گلابی بدن کی خوشبو کبھی تو میرے بدن میں آئے
چہک اٹھے تو لگے کہ جیسے چٹک رہیں ہوں ہزار کلیاں
اگر چھپے تو وہ صرف ایسے کہ چاند جیسے گہن میں آئے
ٹھہر نہ جائے گلاب میں ہی، سمٹ نہ جائے حجاب میں ہی
وہ میری سانسوں کی سیڑھیوں سے اتر کے میرے بدن میں آئے
میری سی حسرت، ملن کی چاہت کبھی تو رخ سے عیاں ہو تیرے
محبتوں کی کوئی عبارت تری جبیں کی شکن میں آئے
مزا تو جب ہے ہمارا جذبہ تیرے گماں کو یقین کر دے
مزا تو جب ہے تری تمازت ہمارے بھی تن بدن میں آئے
٭٭٭
اب تو آتے ہیں سبھی دل کو دکھانے والے
جانے کس راہ گئے ناز اٹھانے والے
کیا گزرتی ہے کسی پر یہ کہاں سوچتے ہیں
کتنے بیدرد ہیں یہ روٹھ کے جانے والے
درد ان کا کہ جو ٖفٹ پاتھ پہ کرتے ہیں بسر
کیا سمجھ پائیں گے یہ راج گھرانے والے
عشق میں پہلے تو بیمار بنا دیتے ہیں
پھر پلٹتے ہی نہیں روگ لگانے والے
پار کرتا نہیں اب آگ کا دریا کوئی
تھے کوئی اور جو تھے ڈوب کے جانے والے
لاکھ تعویذ بنے لاکھ دوائیں بھی ہوئیں
مگر آئے ہی نہیں جو نہ تھے آنے والے
تو بھی ملتا ہے تو مطلب سے ہی اب ملتا ہے
لگ گئے تجھ کو بھی سب روگ زمانے والے
اب وہ بے لوث محبت کہاں ملتی ہے ضیاء
لوگ ملتے ہی نہیں اب وہ پرانے والے
٭٭٭