صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
پاکستان میں مذہبی جماعتیں بے اثر کیوں ؟؟؟
محمد کامران اختر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اسلام کا محدود تصور
یہ جماعتیں اسلام کا نہایت ہی محدود تصور پیش کرتی ہیں ان کے کا رکنوں کو صرف اور صرف چند منتخب فرائض سنن اور مستحبات تک محدود کر دیا جا تا ہے ان تمام فرائض کو صرف نظر کر دیا جا تا ہے جو حاکم وقت کی ناراضگی کا سبب بنتے ہوں یہی وجہ ہے کہ سارا زور نما ز روزہ جیسی عبادات پر دیا جا تا ہے جبکہ لباس اور وضع قطع کے معاملات میں اس قدر سختی کی جا تی ہے کے یوں لگتا ہے کہ جیسے اسلام، نماز اور روزے سے شروع ہو کر داڑھی پگڑی پر ختم ہو جا تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام مسلما ن اخلاقی، سیاسی اور سماجی ذمہ داریوں سے نا بلد رہتا ہے اور اسی غفلت میں دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اسی غفلت سے اغیار نے بھرپور فائدہ اٹھا یا ہے اور آج سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت اور معاشرت پر عالم کفر کہ نشانات گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔
اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک جماعت کیلئے مشکل ہے کہ وہ تبلیغ بھی کرے اور سیاسی اور سماجی ذمہ داریاں بھی نبھائے۔ یہ مشکلات اس وقت مزید بڑھ جاتی ہیں جب جماعتیں ریاست کے سامنے سچ بولنے کی جرات نہ رکھتی ہوں ۔ تاہم اتنا تو ممکن ہے کہ کارکنوں کو اتنا بتا دیا جائے کہ اسلام کا دائرہ چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ ایک مسلمان خطہ ارضی پر اللہ کا نائب بھی ہے۔ اس حوالے سے بھی کارکن اپنی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں ۔ میرے خیال میں اس طرح یہ جماعتیں ریاستی اور عالمی جبر کا نشانہ بننے سے بھی بچ سکتی ہیں اور رب ذوالجلال کے سامنے سرخروبھی ہو سکتی ہیں ۔
سیاسی کردار میں غفلت
اسلام
ایک سیاسی قوت بھی ہے۔ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کا شرعی تصور
سیاسیات سے ہی جڑا ہوا ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ نے اپنی حیات ِ مقدسہ میں دین کی
دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی وضع کرنا شروع کر دی تھی تاکہ
اسلام کو اتھارٹی دلا کر پوری دنیا میں دعوت و تبلیغ کے لیے راہ ہموار کی
جا سکے۔ ہجرت مدینہ اور ریاست مدینہ بھی اسلام کا سیاسی غلبہ ہی تھا۔ اس
حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے راقم کا کتابچہ ’’سیاسیات اسلامی ‘‘ کا
مطالعہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایسی جماعتوں کے کارکنوں سے سیاسی حوالے سے گفتگو کی جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ سیاست کو کوئی ناپاک یا ممنوع عمل گردانتے ہیں ۔ اور کرپٹ نظام اور ظالم کی حکمرانی کو بخوشی قبول کرنے پر تیار ہیں یا اگر نرم الفاظ بھی استعمال کیے جائیں تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے نزدیک حکومتی مشینری یا سیاسی چھتری کے نیچے انجام پانے والے منکرات کا جواب امت سے نہیں مانگا جائے گا۔ حالانکہ اس قسم کا کوئی بھی تصور شرعاً درست نہیں ہے۔
اگرچہ یہ پالیسی ان جماعتوں کے مفاد میں ہے مگر کارکنوں کو سیاست سے روک کر کرپٹ لوگوں کے لیے راہ ہموار کرنا یقیناً ایک شرعی جرم ہے۔ میرے خیال میں سیاسی بصیرت کو چھین کر کارکنوں پر ظلم کیا جاتا ہے۔ اس کے ازالے کیلئے قائدین کو کچھ کرنا چاہیے۔ تاکہ دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں تیار ہونے والی فصل کا فائدہ جماعت کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی پہنچے اور اسلام بطور سیاسی طاقت اپنا لوہا منوائے۔
٭٭٭