صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


پاکستان کی اردو شاعری کی چار معتبر آوازیں

علیم صبا نویدیؒ 

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

ناصرؔ کاظمی کی تلمیحاتی شعر گوئی

مزاج کی برانگیختگی و اضطراب کے عالم میں بھی سوچوں کی سنجیدگی اگر دیکھنی ہے تو وہ ناصرؔ کاظمی کی غزلوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ناصرؔ کاظمی کی سوچوں میں برہمی یا برانگیختگی بھی دھیمی دھیمی لہروں میں نئی کیفیات اجاگر کرتی ہے۔ ناصرؔ کاظمی کی غزلیں گوناگوں رنگوں کو منتشر کرنے والے عدسے ہیں جن کے طیف میں احساسات نتھر نتھر کر حروف میں کیفیتِ خیال کے دائرے بناتے ہیں اور اس طرح کیفیات بلبلوں کی طرح سطح پر اُبھر کر نہ صرف نظارگی کو سیراب کرتے ہیں بلکہ سطح سے نیچے سالم بلبلوں کی قطاروں کے پیدا ہونے کی وجوہات کی تفہیم کا سامان بھی بہم پہنچاتے ہیں۔ ناصرؔ کاظمی کی غزلیں منجھے ہوئے ذہن کی پیداوار ہیں جن میں شعری تہذیب کو ٹ کو ٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ناصرؔ کاظمی نے غزل کی شائستگی کو دوبالا کرنے میں بڑے انہماک سے کام لیا ہے۔ ان کے پُرسکو ن سوچوں کے دھاروں سے جب غزلیں جنم لیتی ہیں تو ان میں جذبات کی ہیجان پر قابو پا کر قلم کو حرکت دینے کا ثبوت ملتا ہے۔ ان کی غزلوں کا ہر شعر ایک نکھرے ہوئے گلدستہ کی صورت میں مرتب دکھائی دیتا ہے۔ ہر شعر شائستگی کا پیکر معلوم ہوتا ہے۔ بے جا لفظیات کے در آنے کی ان میں گنجائش ہی نہیں۔ خیال کے لیے الفاظ کی کفالت ، شعر کو سبک سیلانی بخشتی ہے۔ نیز ان میں غنائیت بھی در آتی ہے۔ غزل میں ان تمام مستحسنات کی گنجائش ناصرؔ کاظمی کے ہاں ملتی ہے۔ ناصرؔ کاظمی جب تک تخلیقی سرگرمی میں مصروف رہتے ہیں ایک عالم کو اپنے چاروں طرف پھیلا لیتے ہیں اور ادھر ادھر سے حسب ضرورت خوشہ چینی کر کے اپنے خیالات کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں۔ ان کی دسترسی دور دور تک جاری رہتی ہے۔ قُرب و بُعد کا سوال ان کے لیے کوئی دقت پیدا نہیں کرتا۔ وہ دور کی چیز بھی واضح طورپر دیکھ لیتے ہیں۔ اور اسے قریب لا کر اس کا تجزیہ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ناصرؔ کاظمی بہت صاف گوئی اور سبک روی کو اپناتے ہوئے ہی اپنے تخلیقی عمل کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ایک عام قاری بھی ناصرؔ کاظمی کی غزلوں سے حظ اٹھا سکتا ہے۔ اس صاف گوئی اور سبک روی کے باوجود ان میں فصاحت و بلاغت برقرار ہے۔ ان کے بہت سے اشعار زبان زد خاص و عام بننے کے قابل ہیں۔ مثلاً یہ شعر:

اڑتی ہوئی زلف یوں پریشاں

جیسے کوئی راہ بھول جائے


وہی وقت کی قید ہے درمیاں

وہی منزلیں اور وہی فاصلے

ان اشعار کی خوبی یہ ہے کہ زود فہم ہیں اور ہمیشہ ذہن میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ان سے ہر سطح کا قاری حظ اٹھا سکتا ہے۔ ناصرؔ کاظمی ہر دقیق مضمون کو آسان ترین بنانے کے گُر سے واقف ہیں۔ ان کے موضوعات حقیقی زندگی پر چسپاں ہونے والے حقائق ہیں۔ یہ محض فکری کاوشیں نہیں ، کوئی بھی موضوع کھینچ تان کر ذہن میں سمونے کا عمل نہیں ہے۔ صحیح معنوں میں غزل کے عروجی دور کی نشاندہی کرنے والی ناصرؔ کاظمی کی تخلیقات ’’برگِ نے ‘‘ میں سجا دی گئی ہیں تاکہ مکر ر مطالعہ کے کام آئیں۔

ناصرؔ کاظمی کی غزلوں میں جو شستہ و شائستہ لفظیات ملتی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا برمحل استعمال ہوا ہے۔ انہیں تنہا کر کے پڑھیں تو کسی لغت پر پائے جانے والے الفاظ ہی ہیں۔ ’’شستہ و شائستہ‘‘ لفظیات کی اصطلاح بہت کم شعراء کے کلام کے تعلق سے کہی جا سکتی ہے۔ جتنے بھی عظیم غزل گو شعراء گزرے ہیں وہ اسی شستگی و شائستگی کے قائل رہے ہیں۔ کسی موقع و محل میں اس کی مناسبت سے ادائیگی لفط نہ ہوتو وہ ہر گز شستہ و شائستہ نہیں کہا جا سکتا، اسی لیے اکثر شعراء کے ہاں بیشتر شعر کھردرے اور قدرے کم بلیغ محسوس ہوتے ہیں۔ ناصرؔ کاظمی کے ہاں اس کی گنجائش ہی نہیں۔ ان کے ہاں ایک بھی ایسا شعر نہیں ملے گا جو ان پر غیر شائستگی کا الزام عائد کرنے کا ذمہ دار ہو۔

ناصرؔ کاظمی کے ہاں سادگی اظہار کے باوجود علویت خیال اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ ان کے اشعار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔

لے اڑی سبزۂ خودرو کی مہک

پھر تیری یاد کا پہلو نکلا


آنکھ کا تارا آنکھ میں ہے

اب نہ گنیں گے تارے ہم


شعلے میں ہے ایک رنگ تیرا

باقی ہیں تمام رنگ میرے

٭٭٭


ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول