صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
نقطۂ نظر
پروفیسر ڈاکٹر غلام شبیر رانا
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اسلوب کی تفہیم
یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ایک تخلیق کار جب پرورش لوح و قلم کا فریضہ
انجام دیتا ہے تو وہ قلب اور روح کی گہرائیوں سے اس کو نمو
بخشتا ہے۔ تخلیق ادب کے سلسلے میں یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ
ادب پارے اس وقت معرض وجود میں آتے ہیں جب تخلیق کار
اپنے دل پہ گزرنے والی ہر کیفیت کو الفاظ کے قالب میں ڈھالے۔ ایک
نیا ادب پارہ جب منصۂ شہود پر آتا ہے تو اس کا برا ہ راست تعلق ایام گزشتہ
کی تخلیقات سے استوار ہو جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کلاسیکی ادب کے
ساتھ لمحۂ موجود کی تخلیقات ایک درخشاں روایت کی صورت میں منسلک ہیں
ایک مثالی نظام ہمہ وقت رو بہ عمل لایا جاتا رہا ہے جس کی بدولت تخلیق کار
کی منفرد سوچ سے آگاہی ہوتی ہے۔ تخلیقی اظہار کے متعدد امکانات ہو ا کرتے
ہیں۔ ایک زیرک،فعال اور مستعد تخلیق کار اپنے صوابدیدی اختیارات کو
استعمال کرتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو اپنا ما فی الضمیر بیان
کرنے کے لیے منتخب کرتا ہے یہی اس تخلیق کار کا اسلوب قرار پاتا ہے۔ سیف
الدین سیف نے کہا تھا :
سیف انداز بیاں بات بدل دیتا
ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک تخلیق کار
تخلیق فن کے لمحوں میں جب اپنے اشہب قلم کی جولانیاں
دکھاتا ہے تو تخلیق فن کے اسے فعال جذبے کو بالعموم غیر شخصی تصور کیا
جاتا ہے۔ بادی النظر میں یہ بات واضح ہے کہ تخلیق کار کے لیے غیر
شخصی معیار تک رسائی بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ اس مرحلے پر وہ تخلیق ادب کو اپنی
اولین ترجیح سمجھتے ہوئے اپنے ذات کے بجائے فن پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتا
ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دردو غم اور مصائب کا ایک غیر مختتم
سلسلہ تخلیق کار کو ہر وقت بیدار رکھتا ہے۔ تخلیق کار پر یہ
بات بہت جلد واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی شخصیت کی نسبت تخلیق ادب کو زیادہ
اہمیت حاصل ہے۔ اس کی تخلیقات کو دوام حاصل ہو گا اور انھی کی بدولت
اس کا نام بھی زندہ رہے گا۔ اسلوب در اصل ایک تخلیق کار کے تخلیقی
تجربوں کا آئینہ دار ہوتا ہے جسے دیکھ کر اس تخلیق کار کی شخصیت کے
جملہ اسرار و رماز کی گرہ کشائی ممکن ہے۔ اسلوب کے ذریعے ایک نقاد کو یہ
موقع ملتا ہے کہ وہ تخلیق اور اس کے لاشعوری محرکات کے بارے
میں سمجھ سکے۔ مسائل عصر اور حال کے تقاضوں کے بارے
میں ادیب جو کچھ محسوس کرتا ہے اسلوب اس کو منعکس کرتا ہے۔ اسلوب کے
ذریعے تخلیق کار کی ذاتی ترجیحات سے آگاہی ہوتی ہے۔ ایک مؤثر اور
جان دار اسلوب کا حامل تخلیق کار معاشرتی زندگی میں اپنے وجود کا
خود اثبات کرتا ہے۔ ممتاز نقاد والٹر پیٹر نے کہا تھا
Style is a certain absolute and unique means of expressing a thing in all its intensity and colour‘‘۱
۱بہ حوالہ عبداللہ ڈاکٹر سید : اشارات تنقید،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،1993،صفحہ 268
٭٭٭