صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
نقوش خاموش
صادق اندوری
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ملاقات کے بعد
رسیلی انکھڑیوں کا کیف بہتر یاد آئے گا
تبسم زیر لب کا حسن مضمر یاد آئے گا
نظر کا تیر اور ابر و کا خنجر یاد آئے گا
حقیقت ہے کہ تو اے فتنہ پر یاد آئے گا
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
ضیائے ماہ سے ضو ریز گلہائے طرب ہوں گے
زر گلزار طالب اور مطلوب ایک جب ہوں گے
نظارے حُسن کے جس وقت بے ذوق طلب ہوں گے
فلک پر جب ستارے انجمن آرائے شب ہوں گے
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت ، بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
فضائے دہر پر جس وقت چھا جائے گی رنگینی
نظر آئے گی ہر جانب بہاروں کی دل آویزی
شمیمِ دل کشا پھیلائے گی جب اپنی سرمستی
پھرے گی ہر طرف جس دم نسیم اٹھکیلیاں کرتی
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
امید افزا میں جس دم شوق کی تصویر دیکھوں گا
محبت کو محبت ہی کا دامن گیر دیکھوں گا
کسی مہجور کی جب اوج پر تقدیر دیکھوں گا
کنار عشق میں جب حسن کی تصویر دیکھوں گا
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
کسی بلبل کو جب دیکھوں گا پھولوں کا تماشائی
جہانِ رنگ و بو میں جب نمایاں ہو گی رعنائی
نظر آئے گا جب کوئی ہم آغوش تمنّائی
کسی محبوب کو دیکھوں گا جب نزدیک شیدائی
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
کہیں جب ہستی پروانہ شیدائے طرب ہو گی
کہیں جب شمع کوئی بزم آرائے طرف ہو گی
کہیں جب خود محبت کو تمنائے طرب ہو گی
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
کوئی غارت گر دل ہو گا جب پہلوئے رہزن میں
قبائے گل کو جب دیکھوں گا جب بلبل کے نشیمن میں
کسی کو نغمہ پیرا جب سنوں گا صحنِ گلشن میں
نظر آئے گا جب کوئی کنول دیا کے دامن میں
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
کسی پیماں شکن کے جب کبھی وعدے وفا ہوں گے
عیاں جب انکھڑیوں سے عشوہ ہائے دلربا ہوں گے
کسی کے لب کسی کے لب سے جب خط آشنا ہوں گے
یہ نظارے مگر میرے لیے محشر نما ہوں گے
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
اندھیری رات میں رہ رہ کے وہ جگنو کی تابانی
بھری برسات میں ہو پے بہ پے نغموں کی ارزانی
نظر آئے گی جب ہر سو ترانوں کی فراوانی
میسر ہو گی جب صادقؔ کے دل کو اشک افشانی
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
(15/ جنوری 1941ء مطبوعہ ’آئینہ‘ بمبئی )
۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو رخصت کرتے وقت
ابھی تو میری تمنّا جوان ہے دیکھو
ابھی سے میری تمنّا مٹا کے جاتی ہو
ابھی تو تکملۂ وصل کی ضرورت تھی
ابھی سے ہجر بہ داماں بنا کے جاتی ہو
ابھی تو میری نگاہوں میں تاب تھی باقی
ابھی سے پردۂ رنگیں گرا کے جاتی ہو
ابھی تو دل میں تھی حسرت شراب عشرت کی
ابھی سے بادۂ فرقت پلا کے جاتی ہو !
ابھی تو عیش کے لمحوں کو طول دینا تھا
ابھی سے عیش کے لمحے گھٹا کے جاتی ہو
تمہیں گمان ہے مسرور و شاد کام ہوں میں
مجھے یقین ہے مجھ کو مٹا کے جاتی ہو !
اکیلا چھوڑ کے جاتی ہو مجھ کو تم لیکن ،
مجھے خوشی ہے کہ اپنا بنا کے جاتی ہو !
’’وداع و وصل جدا گانہ لذتِ وارد
ہزار بار برو صد ہزار بار بیا(1)‘‘
(1) غالب 21۔ جولائی 41 ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭