صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
نکتگو
یاہو گروپ علی گڑھ اردو کلب میں شروع کئے گئے سلسلے کے کچھ مضامین
محمد طارق غازی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
شاعری کی زبان
نکتہ
میں ڈاکٹر سموئل جانسن کے اس قول میں یقین رکھتا ہوں کہ ادب کے تمام اسالیب اور اصناف میں شاعری ہی در اصل زبان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ ۔۔۔ شاعری کے مفاہیم صرف اپنی تعمیر میں صرف ہونے والے لفظوں کے یا زبان کے پابند نہیں ہوتے۔ بحر و وزن، آہنگ و اصوات، متعلقہ زبان اور متعلقہ شاعر کے مخصوص ذخیرۂ الفاظ، اس کے علامتی اور استعاراتی نظام میں بھی معنیٰ کے بہت مضمرات چھپے ہوتے ہیں۔
- پروفیسر شمیم حنفی
جاوید نامہ، اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ؛ اقبال ریویو، حیدرآباد، اپریل ۲۰۰۸ / ص ۴۳
گفتہ
بہت اہم ہے یہ دعویٰ کہ شاعری زبان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ درد و کرب کا اظہار، رنج و خوشی کا بیان، عصری حسّیات کی نگارش، حالات حاضرہ پر تبصرہ یقیناً شاعری کو ایک طاقتور صورت ابلاغ بناتے ہیں مگر میری دانست میں شاعری ہر زبان کے لئے مقننہ کا کام کرتی ہے اور یہی اس کا اصل منصب اور مقصد ہے۔ انسانی کیفیات کا اظہار و بیان و تذکرہ و تبصرہ سب اسی مقصد کے لئے ایک زبان کے ہتھیار اور اوزار ہوتے ہیں۔ میر کو یونہی تو لوگوں نے خدائے سخن نہیں مان لیا تھا۔ انہوں نے جب کہا تھا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا، تو وہ جانتے تھے کہ وہ اردو زبان کے فقیہ و مفتی ہیں۔ آج کا شاعر و ادیب جب مطالبہ کرتا ہے کہ بطور سند قدیم اساتذہ میں سے کسی کا شعر پیش کرو تو وہ وجدانی طور پر شاعری ہی کو زبان کے در و بست، نظم و ترتیب، الفاظ کی نشست و ترکیب کا پیمانہ تسلیم کرتا ہے۔ کسی لفظ، محاور ے یا روزمرہ کی سند تو محمد حسین آزاد اور رتن ناتھ سرشار سے بھی لائی جا سکتی ہے مگر قول فیصل تو شیخ ابراہیم ذوق اور غلام ہمدانی مصحفی کا شعر ہی ہوتا ہے۔
ایک بات اور ، کوئی تو وجہ ہے کہ زبان کے سلسلے میں ترقی پسند اور جدید شاعر سند نہ مانے گئے۔ بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ان لوگوں نے وہ زبان اختیار کر لی تھی جس کے بارے میں لکھنو کے سفر کے دوران میر نے پہلوان کی بک بک کے جواب میں کہا تھا کہ کیا ضرور تم سے گفتگو کر کے میں اپنی زبان خراب کروں۔ یہ وہی میر تھا جو یہ بھی کہتا تھا گفتگو مجھ کو پر عوام سے ہے۔ یعنی عوام کی باتیں بھی تھیں اور ان کی لسانی تربیت بھی ساتھ ہی مقصود تھی، اپنی زبان بگاڑے بغیر۔ اسی لئے ان کی زبان خواص و عوام میں آج تک سند ہے۔
انسانیت کے بچپن پر نظر کریں تو رنج، خوشی، محبت، کلفت کے بہتر اظہار کے لئے ابتدائی دور کا انسان مکالمے نہیں بولتا تھا، بلکہ گانے لگتا تھا۔ وہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ شادی کا سہرا اور رخصتی، مرثیہ اور نوحہ، تہنیت اور ہجو، واسوخت اور شہر آشوب سب منظوم ہوتے ہیں، ان پر مقالے نہیں لکھے جاتے۔ مقالے فلسفہ ہوتے ہیں، جذبات نہیں۔ بات بس اتنی ہے کہ شعری پیرائے میں کہی ہوئی بات نسل در نسل یاد رہ جاتی ہے۔ حالی کے مرثیۂ دلی کے بہت سے اشعار آج بھی لوگوں کو نوک زبان ہوں گے ؛ اسی موضوع پر خطوط غالب کے کتنے جملے اور فقرے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی حفظ ہیں ؟ بس یہی رمز ہے شاعری کی لسانی اور پھر اس ذیل میں قانونی اور عمرانی اہمیت کا۔
کچھ لوگ باور کرتے ہیں کہ شعر میں اپنا ذاتی یا عصری کوئی کرب بیان کر دیا تو حق شاعری ادا ہو گیا۔ وہ لوگ غلطی پر ہیں۔ جس مثبت یا منفی جذبے کا اظہار شاعری میں ہوتا ہے اس کا اصل مقصد زبان کو نازک باتیں سلیقے سے بیان کر نے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ شاعر اس اعتبار سے مستقبل کی تہذیب کا معمار ہوتا ہے، محض نوحہ گر اور سہرا نویس نہیں۔ وہ زبان ساز ا نسان ہوتا ہے اور الفاظ کے درست استعمال، محاور ے اور روزمرہ کے چست اور بر محل ہونے کی نگرانی کرتا ہے، جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں زبان کو نئے الفاظ مہیا کے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ پھر ان لفظوں سے ادا ہونے والے معانی اور ان معانی کی نیرنگی کا تعین کرتا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بہت اچھی بات کہی ہے کہ شاعری میں اصل شے لفظ ہے۔ میں اضافہ کروں گا کہ نثر میں اصل شے جملہ ہے : جس کے الفاظ و معنیٰ شاعر متعین اور مہیا کرتا ہے۔
چنانچہ جب لفظ کا خزانہ زبان کی امارت، شکوہ و قوت، شوکت و وسعت کا ثبوت بن جاتا ہے تو نثر کے بال و پر آتے ہیں۔ نثر راست شاعری سے متاثر ہوتی ہے۔ قدم قدم پر شعر اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہر زبان میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ نثر لکھتے ہوئے کسی نکتے کی زیادہ خوبصورت وضاحت کے لئے درمیان میں ایک شعر یا مصرعہ لکھ دو تو تحریر کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی شاعر نے اپنی نظم کے درمیان حسن بیان کی خاطر کوئی نثری فقرہ درج کیا ہو۔ یہ بجائے خود ثبوت ہے اس بات کہ نہ صرف شاعری کے ذریعہ بولی کو زبان کا مرتبہ ملتا ہے، بلکہ زبان اپنے ارتقا کے ہر دور میں شاعری کی رہنمائی کی محتاج رہتی ہے۔ جب شاعری کی زبان کمزور پڑنے لگے تو اس میں لسانی زوال کا سبب دیکھا جا سکتا ہے۔ شاعر پست و بے روح الفاظ استعمال کرنے لگے، ان کے شجروں سے ناواقف، معنیٰ کی تہوں سے بے خبر ہو اور غیر ثقہ مفاہیم نظم کرنے لگے تو زبان نیم جاں ہو جاتی ہے اور کسی علمی کام کا بوجھ اٹھا نے کے قابل نہیں رہتی۔
میں نے پہلی نکتگو میں شعر و علم کا موازنہ پیش کیا تھا۔ اسے آج کی نکتگو کا پیش لفظ سمجھ لیجئے۔ وہ یوں کہ مغربی زبانوں میں جب علوم (انگریزی میں سائنسوں ) کا عروج ہوا تو شاعری فطری طور پر کمزور ہوئی۔ انگریزی میں رومانوی تحریک کے بعد اُس بلندی کا شعری ادب تخلیق نہیں ہوا جس معیار کی نثر، بالخصوص علمی نثر، لکھی گئی۔ اس نثر کو بھی لسانی رہنمائی تو بہر حال درکار تھی۔ خاص طور سائنسداں قلم کار زبان کے در و بست پر وہ نظر نہیں رکھتے جو تخلیقی زبان لکھنے والے کا امتیاز ہوتی ہے۔ چونکہ شاعری کی صنف صنعتی انقلاب کے ساتھ کمزور پڑنے لگی تھی تو مغرب، خصوصاً انگلستان، میں صحافت کو عروج ہوا اور صحافی نے وہ کر دار ادا کرنا شروع کیا جو رومانوی تحریک تک شاعر ادا کرتا رہا تھا۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر انگریزی شاعری رومانوی دور سے نہ گزری ہوتی تو صنعتی انقلاب کی سائنسی تحریروں کو زبان میسر نہ آتی اور خود صنعتی انقلاب ہی نہ آتا۔ فلسفۂ انقلاب کے بغیر انقلاب کب آتا ہے ؟ اور فلسفہ تو صرف تونگر زبان میں لکھا جاتا ہے۔
اردو میں ہم اس دور میں داخل ہوئے ہی تھے کہ نکالے گئے۔ میر و غالب، سودا و ذوق، نصرتی و ولی، نصیر و مومن، درد و داغ، حاتم و حالی، آتش و انشا شاعری کی راہ سے اردو کو اس مقام تک لے آئے تھے کہ ایک طرف عود ہندی کی نثر لکھی جا سکی اور دوسری طرف قول فیصل اور غبار خاطر کی۔ ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، حامد الانصاری غازی، ظفر علی خان، عبدالمجید سالک، شائق عثمانی، نصر اﷲ خان عزیز، چراغ حسن حسرت، حیات اﷲ انصاری، عبدالرزاق ملیح آبادی، شورش کاشمیری، وغیرہ کو غالباً یہ احساس تھا کہ اردو اعلیٰ علمی وقار کی زبان بننے کے مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں شاعری کی روایت کمزور پڑے گی۔ چنانچہ صف اول کے ان تمام صحافیوں نے اپنے اخبارات - الہلال، البلاغ، ہمدرد، مدینہ، جمہوریت، زمیندار، انقلاب، عصر جدید، ایشیا، ، قومی آواز، آزاد ہند، چٹان - کے توسط سے اردو زبان کی صحت و معیار کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی، اور دیکھتے ہی دیکھتے حیدرآباد میں دار الترجمہ کو علوم دنیا کے تراجم اور اصطلاح سازی کے لئے بلند پایہ زبان داں افراد اور ایک توانا زبان کا رفیع الشان ذخیرۂ الفاظ مل گیا۔
پھر اس ذخیرۂ الفاظ ہی پر ضرب پڑی۔ اس سے پہلے خود زبان پر ضرب پڑ چکی تھی۔ پاکستان میں بنگالی کے ساتھ نزاع پیدا ہوا اور ہندستان میں ہندی کے ساتھ۔ اب حال یہ ہے کہ اردو صحافت خود بہت کمزور ہے، اور شاعری کے ذریعہ زبان کی اصلاح اور توانائی بخش مہم بھی سرد پڑ ے دیر ہو چکی ہے۔ اردو کا المیہ یہ ہے کہ آج اس کے تحفظ کی ضامن اس کی شاعری رہی اور نہ صحافت۔ آج یہ بے مایہ زبان خود کو امیر خسرو (۱۳۲۵-۱۲۵۳) اور ولی دکنی (۱۷۰۷-۱۶۶۷) کے درمیانی عبوری زمانہ میں پاتی ہے۔ یعنی بات پھر وہیں سے شروع کیجئے جہاں سے ولی، سراج اور نگ آبادی اور میر و سودا نے اٹھائی تھی۔ اور یہ بھی مشروط ہے اس دعوے کے ساتھ کہ اردو کو ایک علمی زبان بنایا جا سکتا ہے اور اس کی راہ سے بھی صنعتی انقلاب قسم کی کوئی زبردست فکری، علمی، عملی اور عمرانی، تبدیلی اس دنیا میں آ سکتی ہے۔
اور یہ سب کچھ ممکن نہ ہو یا کسی کو اس قسم کی لغویات سے دلچسپی نہ ہو تو بھائی نہ تو اردو ہمارے پیر پڑ رہی ہے نہ ہمارے پیروں کی بیڑی ہے۔ جس زبان، جس قوم، جس انسانی گروہ میں صلاحیت ہو گی وہ وہ سب کچھ کر گزرے گا جو دو سو سال پہلے انگریز نے کیا تھا، اور اس سے نو سو سال پہلے جسے مسلمان نامی ایک قوم نے عربی کے راستے سے کیا تھا۔
پس تحریر: اور بھئی یہ ڈاکٹر جانسن کون ہیں ؟ یہ وہی تو نہیں جو جانسن اینڈ جانسن کے نام سے بے بی پاؤڈر بنا کر بیچتے ہیں ؟ اردو تو کیا جانتے ہوں گے۔ اچھا اچھا یہ وہی ہیں، انگریزی کے محمد حسین آزاد ! تو بات کرنے کے لئے آزاد ہی کیا برے ہیں ؟ اردو زبان یعنی لسانیات پر ہمارے لوگوں نے بھی تو کبھی کچھ کہا ہو گا۔ آب حیات میں نہ سہی نکات سخن میں سہی، نکات الشعرا میں نہیں تو شعر الہند میں، مقدمہ شعر و شاعری میں نہیں تو شعر شور انگیز میں، کہیں ہمارے کسی آدمی نے بھی تو زبان و ادب و شعر پر کوئی ایسی عقل کی بات کسی جگہ لکھی ہو گی جس پر ہم شرمندہ ہوئے بغیر اپنے یقین کا اظہار کر سکیں۔ اور ایسا نہیں ہے تو بھائی اردو داخل ایمان تو ہے نہیں کہ یقین کے لئے ضروری ٹھہرے، نہ اس سے مفاد دنیا وابستہ کہ ولایتی صاحب کا نام بیچ میں آئے بغیر یہ زبان ہی مستند نہ ہو۔ ہاں بے بی پاؤڈر کی بات الگ ہے۔
٭٭٭