صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


نوبل پرائز سے آگے

نا معلوم

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

کیا اِسلام بڑھتی ہوئی آبادی کے حق میں ہے؟

     وضاحت:۔فلسفۂ تعددِ ازواج اور ایک روایت جس میں اُمت کی زیادتی کو باعث فخر بتایا گیا ہے، کو بنیاد بنا کر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اِسلام جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ اِس میں زیادہ اولاد کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اگر اُمت کی زیادتی بہتر ہے تو اِسے عقلی طور پر کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

اس طرح کے متعدد اعتراضات ایسے ہیں جن کا ایسا مؤثر جواب دستیاب نہ ہوا جو پوری انسانیت کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل کرنے کا منظر  تخلیق کر سکے۔ چونکہ وہ اس کتاب کے موضوع سے متعلق نہیں ہیں اس لیے انہیں یہاں درج نہیں کیا گیا۔ ان کا فیصلہ کن اور نتیجہ خیز جواب دوسری ای بک ’’یہ اسلامی نظام آخر ہوتا کیا ہے’’ میں ذکر کیا جا چکا ہے۔

 یہ جستجو کی ابتدا تھی اور پھر اِسی کے نتیجے میں وہ انوکھا نظام ملا جس میں بنی نوع اِنسان کے تمام مسائل یعنی معاشی، سماجی، طبی، عائلی اور دیگر تمام محرومیوں اور الجھنوں کا خواہ وہ اِجتماعی سطح پر ہوں یا اِنفرادی سطح پر، ہر مسئلے کا ایسا فوری اور حتمی حل موجود ہے جو معمولی عقل کے اِنسان کو بھی باآسانی سمجھ میں آ سکتا ہے۔
     یہ نظام قرآن سے اخذ کیا گیا ہے مگر یہاں یہ دُکھ بھرا اعتراف ضروری ہے کہ بدقسمتی سے ہم تقریباً دو صدیوں سے قرآن کی اُردو ترجمانی متعدد مقامات پر غلط کرتے چلے آ رہے ہیں اور چونکہ ذہنوں میں شخصیت پرستی اِس حد تک پختہ کر دی گئی ہے کہ ہم اکابرین سے ہونے والی خطا کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں لہٰذا لغزش پر لغزش ہو رہی ہے اور یہی سارے فساد کی جڑ ہے۔
     ہر سمجھدار شخص بخوبی جانتا ہے کہ کسی بھی معاشرتی نظام میں موجود خلا کو محض اِخلاقیات اور پند و نصائح سے بھرا نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پند و نصائح کی بھرمار کے باوجود معاشرے سے سدھار ختم ہوتا جا رہا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جسے معاشرتی نظام کے مینوفیکچررز ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ جہاں بھی قانونی طور پر بے بس ہوتے ہیں، ان کے پاس سزائیں شدید کرنے اور اِخلاقی اقدار کا درس دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا حالانکہ آج بنی نوع اِنسان کی اصل ضرورت اِخلاقیات کی تدریس سے زیادہ بے عیب قانونی نظام کی تکمیل اور دستیابی ہے اور نظام کی پہچان یہ ہے کہ اُسے اِخلاقیات کے سہارے کا محتاج نہیں ہونا چاہیے، مثال کے طور پر یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر اہل ثروت اِنفرادی صدقات و خیرات کرنا بند کر دیں تو اِس سے غریب آدمی متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس پر اِسلام کا نظام اِجتماعی جسے شریعت کی اصطلاح میں دین کہتے ہیں، اپنے سنہری ادوار میں پورا اُترتا رہا ہے اور ہم تاریخ میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ اہل ثروت ہاتھ میں خیرات کی رقم لے کر نکلتے تھے اور لینے والا نہیں ملتا تھا۔ یہ سماجی بناوٹ اُس دور میں مروجہ اسی قانون کا نفسیاتی ردعمل تھی اور اِس میں افراد کی اِخلاقی بلندی کا کچھ دخل نہ تھا۔
     اِسی کسوٹی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اِس نظام کے معاشرتی اور معاشی حصہ کو جو اِس کتاب کا موضوع بھی ہے، ابتدائی ابواب میں مذہبی حوالوں کے ذکر کے بغیر صرف طبی، نفسیاتی، عمرانی اور اقتصادی حوالوں کے ساتھ اور صرف کائناتی حقیقتوں کے تائیدی ثبوت کے ساتھ عقلی طور پر مرتب کیا ہے اور اِس ضمن میں اِس امر کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی میدان کے کسی بھی ماہر کی ذاتی رائے کو حجت نہ بنایا جائے تاکہ دنیا کے کسی بھی فرد کے لیے تعصب کا کوئی احتمال نہ رہے۔
اِس کے بعد کے باب ’’ضابطۂ قانون اور طریق نفاذ‘‘ میں قانونی شقوں کو ترتیب دیا گیا ہے اور اس سے  اگلے باب ’’منظر نامہ‘‘ میں اِس نظام کی قانونی اجازت ملنے کے بعد کا معاشرتی منظر چشم تصور پر اُجاگر کیا گیا ہے ۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول