صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
نظام الاسلام
نا معلوم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اسلامی تہذیب
تہذیب اور تمدن کے مابین فرق ہے۔ تہذیب زندگی کے بارے میں تصورات کے
مجموعہ کو کہتے ہیں جبکہ تمدن اشیائے محسوسہ کی ان مادی اشکال کو کہا جاتا
ہے جو زندگی کے معاملات میں زیر استعمال آتی ہیں۔ تہذیب زندگی کے بارے میں
نقطۂ نظر کے لحاظ سے خاص ہوتی ہے جبکہ تمدن خاص بھی ہوتی ہے اور عام
بھی۔پس تمدن کی وہ اشکال، جو تہذیب سے جنم لیتی ہیں، جیسے مجسمے، تو وہ
خاص ہیں۔ تمدن کی وہ اشکال، جو سائنس اور صنعت کی ترقی سے جنم لیتی ہیں،
وہ عام ہوتی ہیں۔ یہ کسی امت کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتیں بلکہ یہ صنعت اور
سائنس کی طرح عالمی ہوتی ہیں۔
تہذیب اور تمدن کے مابین پائے جانے والے اس فرق کا ہمیشہ لحاظ رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ اس فرق کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جو تمدن کی ان اشکال، جو تہذیب سے جنم لیتی ہیں اور ان اشکال، جو سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی سے جنم لیتی ہیں، کے درمیان ہے۔ اس لیے تمدن کو اخذ کرتے وقت ان کی اشکال اور تمدن و تہذیب کے درمیان فرق کا لحاظ رکھنا چاہیے۔چنانچہ وہ مغربی تمدن، جو سائنس و ٹیکنالوجی کی پیداوار ہے، اس کو اپنانے میں کوئی امر مانع نہیں۔ وہ مغربی تمدن، جو ان کی تہذیب سے پیدا ہوتی ہے، تو اس کو کسی حال میں اپنا ناجائز نہیں۔ مغربی تہذیب کو اختیار کرنا بالکل جائز نہیں، اس لیے کہ یہ اپنی بنیاد اور زندگی کے بارے میں تصور اور انسان کی سعادت کے بارے میں اسلامی تہذیب سے بالکل متصادم ہے۔
مغرب کی تہذیب دین کے زندگی سے الگ ہونے کی بنیاد پر قائم ہے اور وہ اس بات کی بھی منکر ہے کہ زندگی میں دین کا کوئی اثر ہے۔ چنانچہ اس کے نتیجے کے طور پر دین کی ریاست سے علیحدگی کی فکر پیدا ہوئی۔کیونکہ یہ اس شخص کے لیے ایک طبعی بات ہے جو دین کو زندگی سے جدا کرتا ہے اور زندگی میں دین کے وجود کا انکار کرتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کی زندگی قائم ہے اور زندگی کا نظام برقرار ہے۔اس کی رُو سے زندگی کا نقشہ ہی منفعت ہے کیونکہ یہی اعمال کا معیار ہے۔ اسی لیے اس نظام کی بنیادہی منفعت پر ہے اور اسی پر تہذیب کی بھی بنیاد ہے۔ چنانچہ اس نظام اور تہذیب میں منفعت کا ایک واضح مفہوم ہے کیونکہ اس میں حیات کا تصور ہی یہ ہے کہ یہ بھی ایک منفعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک سعادت یہ ہے کہ انسان کو زیادہ سے زیادہ جسمانی تمتع اور اس کے اسباب مہیا کیے جائیں۔ اس لیے مغربی تہذیب ایک خاص منفعت پرستانہ تہذیب ہے اور اس میں منفعت کے علاوہ کسی اور چیز کا کوئی وزن نہیں۔یہ صرف منفعت کا اعتراف کرتی ہے اور اس کو اعمال کا معیار قرار دیتی ہے۔ روحانی پہلو اس میں انفرادی نوعیت کاہے جس کا جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور یہ (روحانی پہلو)کنیسہ اور رجال کنیسہ تک ہی محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں اخلاقی یا روحانی یا انسانی قیمت کا کوئی وجود نہیں۔اس میں صرف مادی اور نفعی قیمت کا تصور ہے۔اسی وجہ سے اس میں انسانی اعمال کو ان تنظیموں کے تابع بنایا گیا جو ریاست سے جدا ہیں۔جیسے ’’صلیبِ احمر‘‘ (ریڈ کراس)اور ’’عیسائی تبلیغی مشنز‘‘ اور زندگی سے مادی قیمت یعنی فائدے کے علاوہ ہر قیمت کو ہٹایا دیا گیا ہے۔پس مغربی تہذیب زندگی کے بارے میں انہی تصورات کا مجموعہ ہے۔
اسلامی تہذیب اس اساس پر قائم ہے جو مغربی تہذیب کی اساس کے متضاد ہے اور زندگی کا نقشہ اس کے نزدیک مغربی تہذیب کی زندگی کے نقشے سے بالکل مختلف ہے۔اسلامی تہذیب میں سعادت کا مفہوم مغربی تہذیب میں اس کے مفہوم سے بالکل جدا ہے۔اسلامی تہذیب اللہ پر ایمان رکھنے کی بنیاد پر قائم ہے اور اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات، انسان اور حیات کا ایک نظام بنایا ہے، جس پر وہ چلتے ہیں، اور اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسلام کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ یعنی اسلامی تہذیب اسلامی عقیدے کی اساس پر قائم ہے۔ اسلامی عقیدہ اللہ تعالیٰ، ملائکہ، آسمانی کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن پر ایمان لانے اور قضا و قدر کے خیر و شر کے من جانب اللہ ہونے کو کہتے ہیں۔چنانچہ یہ عقیدہ ہی اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے اور یہ ایک روحانی بنیاد پر قائم ہے۔ اسلامی تہذیب میں زندگی کا نقشہ اسلام کے اس فلسفے سے واضح ہوتا ہے جو اسلامی عقیدے سے پھوٹتا ہے اور جس پر زندگی اور زندگی میں انسان کے اعمال قائم ہیں۔یہ فلسفہ مادہ اور روح سے مرکب ہے۔ یعنی اعمال کو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق بجا لانا ہی زندگی کے تصور کی بنیاد ہے۔ چنانچہ انسانی عمل مادہ ہے اور انسان جب وہ عمل سر انجام دیتا ہے تو اس وقت اس بات کا ادراک کرنا کہ’’ اس عمل کے حلال یا حرام ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا ‘‘روح ہے۔ لہٰذا یہ روح اور مادے کا مرکب ہے۔اسی وجہ سے مسلمان کے اعمال کا محرک اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق اعمال کی انجام دہی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، صرف منفعت نہیں۔ کسی عمل کو سر انجام دینے کا ارادہ اس عمل کی انجام دہی کی قیمت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ قیمت اعمال کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ کبھی تو یہ قیمت صر ف مادی ہوتی ہے جیسے نفع کے ارادے سے تجارت کرنا۔ کیونکہ انسان کا تجارت کرنا ایک مادی عمل ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اسے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق سرانجام دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ وہ قیمت، جس کا اس عمل کی انجام دہی رعایت کرتا ہے وہ نفع ہے اور وہ اس کی مادی قیمت ہے۔
کبھی قیمت روحانی ہوتی ہے جیسے نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ وغیرہ، اور کبھی قیمت اخلاقی ہوتی ہے جیسے سچائی، امانت داری اور وفاداری۔ بعض دفعہ قیمت انسانی ہوتی ہے جیسے ڈوبنے والے کو بچانا یا مصیبت زدہ کی مدد کرنا۔ انسان جب کوئی عمل سرانجام دیتا ہے تو انہی قیمتوں کا لحاظ رکھتا ہے۔ مگر یہ اعمال کا محرک نہیں ہوتیں اور یہ اعلیٰ معیار نہیں کہ اعمال کی انجام دہی کے وقت ان کو ہدف بنایا جائے۔ بلکہ یہ عمل کی قیمت اور اعمال کے مختلف ہونے کی صورت میں مختلف ہوتی ہیں۔ سعادت تو اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے نہ کہ انسانی حا جات کو پورا کرنا۔کیونکہ انسان کی تمام حا جات یعنی عضویاتی حا جات یا جبلتوں کی حا جات کو پورا کرنا انسان کی ذات کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ یہ کوئی سعادت کا ذریعہ نہیں۔
یہ ہے زندگی کا نقشہ !اور یہ ہے وہ بنیاد! جس پر یہ نقشہ قائم ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے اور مغربی تہذیب کے بالکل متضاد ہے جیسا کہ اس سے نکلنے والی تمدن کی اشکال مغربی تہذیب سے نکلنے والی مدنی اشکال کے بالکل متضاد ہیں۔مثلاً تصویر ایک تمدنی شکل ہے اور مغربی تہذیب ایک ایسی عریاں نسوانی تصویر کو، جس میں نسوانی اعضا کے حسن و جمال کو خوب نمایاں کیا گیا ہو، ایک تمدنی شکل قرار دیتی ہے اور یہ عورت کے بارے میں ان کی زندگی کے تصورات سے ہم آہنگ ہے۔ اس لیے ایک مغربی انسان اسے ایک فنی شہ پارہ سمجھتا ہے اور ایک تمدنی شکل کے طور پر اس پر فخر کرتا ہے جبکہ اس میں فنی کمال کی تمام شرائط پوری طرح پائی جائیں۔لیکن یہ شکل اسلامی تہذیب سے متضاد ہے اور عورت کے بارے میں اس کے تصورات کے بالکل خلاف ہے، جن کی رُو سے عورت ایک آبرو ہے اور اس کی حفاظت فرض ہے۔ اس لیے یہ تہذیب ایسی تصویر کشی کو ممنوع قرار دیتی ہے کیونکہ یہ جبلتِ نوع کو بھڑکانے اور اخلاقی انار کی کی طرف لے جانے کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح جب مسلمان گھر بنانے کا ارادہ کرتا ہے جو ایک تمدنی شکل ہے، تو وہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ عورت جب گھر میں حالت تبذل (مختصر لباس پہن کر کام کاج میں لگنا)میں ہو تو اس پر باہر کے لوگوں کی نظر نہ پڑے۔ چنانچہ وہ اس کے گرد چار دیواری بناتا ہے، برخلاف مغربی آدمی کے، کہ وہ اپنی تہذیب کے مطابق ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتا۔ اسی طرح وہ تمام تمدنی اشکال جو مغربی تہذیب سے نتیجے کے طور پر نکلتی ہیں جیسے مجسمے وغیرہ اور اسی طرح کپڑے، اگر وہ کفار کے ساتھ ان کے کفار ہونے کے اعتبار سے خاص ہوں، تو مسلمان کے لیے ان کو پہننا جائز نہیں۔ کیونکہ وہ (کپڑے)ایک خاص نقطۂ نظر کے حامل ہیں۔اگر کپڑے، اس طرح کے ہوں کہ جن سے ان کے مخصوص کافرانہ تعارف کی پہچان نہ ہوتی ہو، بلکہ انہوں نے ضرورت کے طور پر یا زینت کے لیے ان کو استعمال کرنا ہو، تب یہ عام تمدنی اشکال میں شمار ہو ں گے اور ان کا استعمال جائز ہو گا۔
جہاں تک ان تمدنی اشکال کا تعلق ہے جو سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ہیں، جیسے لیبارٹریوں کے آلات، طبی آلات، فرنیچر اور قالین اور اسی قسم کی دوسری چیزیں، یہ سب عالمی تمدنی اشکال ہیں۔ ان کو اختیار کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ کیونکہ یہ کسی خاص تہذیب کی پیداوار یا اس سے متعلق نہیں ہیں۔
اس مغربی تہذیب پر، جس کی پوری دنیا پر حکومت ہے، ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے نظر آئے گا کہ مغربی تہذیب انسانیت کو اطمینان کی ضمانت دینے سے بالکل قاصر ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ تو انسانیت کے لیے اس بدبختی کا سبب ہے جس کے کانٹوں پر پوری دنیا کروٹیں لے رہی ہے اور اس کی سلگائی ہوئی آگ میں جل رہی ہے۔ وہ تہذیب، جو دین کی زندگی سے جدائی کو اپنی بنیاد قرار دے رہی ہے، انسانی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ وہ تہذیب، جو عام زندگی میں روحانیت کو کوئی وزن نہیں دیتی اور زندگی کا تصور اس کے نزدیک صرف منفعت ہے، اور انسان اور انسان کے درمیان تعلق بھی صرف منفعت ہی کاہے، اس تہذیب کا نتیجہ صرف بدبختی اور دائمی پریشانی ہی ہو سکتا ہے۔ پس جب تک منفعت اس کی بنیاد رہے گی اس وقت تک یہ تنازع طبیعی ہے اور ا س کے راستے میں جھگڑنا ایک فطری امر ہے۔اس طرح انسانوں کے مابین تعلقات کے قیام کے لیے قوت پر بھروسہ کرنا اس تہذیب کی رُو سے ایک طبیعی امر ہے۔اسی وجہ سے اس تہذیب کے حامل افراد کے نزدیک استعمار بھی ایک طبعی امر ہے۔چنانچہ اس تہذیب کے ہاں اخلاق بھی ہمیشہ ڈانواں ڈول ہی رہیں گے، کیونکہ صرف منفعت ہی اس کی زندگی کی بنیاد ہے۔ لہٰذا یہ طبعی بات ہے کہ زندگی سے اخلاقِ کریمہ نکل جائیں جس طرح کہ روحانی قیمتوں کو نکال دیا گیا تو زندگی مقابلے، جھگڑے، دشمنی اور استعمار کی بنیاد پر استوار ہو گئی۔پس آج دنیا میں انسانوں کے اندر روحانی المیوں، دائمی پریشانی اور پھیلا ہوا شر اس مغربی تہذیب کے نتائج کی بہترین دلیل ہے۔ کیونکہ آج پوری دنیا پر اسی تہذیب کی حکومت ہے اور اس نے ان خطرناک نتائج کو پیدا کیا اور چنانچہ یہی آج پوری دنیا کے لیے خطرہ ثابت ہو رہی ہے۔
اسلامی تہذیب پر نظر ڈالنے سے، جو چھٹی صدی عیسوی سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی تک، دنیا پر حکومت کرتی رہی، معلوم ہوتا ہے کہ وہ استعمار نہیں تھی، بلکہ استعماریت اس کی طبیعت میں بھی شامل نہیں تھی۔کیونکہ اس نے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کبھی فرق نہیں کیا۔پس اس کی تمام مدتِ حکمرانی میں، ان تمام اقوام کو عدالت کی ضمانت حاصل تھی، جو ا س کے زیرِ سایہ تھے۔کیونکہ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو اس روحانی بنیاد پر قائم ہے، جو مادی، روحانی، اخلاقی اور انسانی قیمتوں کو متحقق کرتی ہے اور یہ عقیدہ ہی اس تہذیب میں مدارِ زندگی ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کا تصور اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق چلنا ہے اور سعادت کے معنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ہے۔ پس یہ اسلامی تہذیب، پہلے کی طرح دنیا پر حکمرانی کرے گی تو دنیا کے تمام بحرانوں کے حل کے لیے کافی ہو گی اور پوری انسانیت کی خوشحالی کی ضمانت دے گی۔
تہذیب اور تمدن کے مابین پائے جانے والے اس فرق کا ہمیشہ لحاظ رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ اس فرق کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جو تمدن کی ان اشکال، جو تہذیب سے جنم لیتی ہیں اور ان اشکال، جو سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی سے جنم لیتی ہیں، کے درمیان ہے۔ اس لیے تمدن کو اخذ کرتے وقت ان کی اشکال اور تمدن و تہذیب کے درمیان فرق کا لحاظ رکھنا چاہیے۔چنانچہ وہ مغربی تمدن، جو سائنس و ٹیکنالوجی کی پیداوار ہے، اس کو اپنانے میں کوئی امر مانع نہیں۔ وہ مغربی تمدن، جو ان کی تہذیب سے پیدا ہوتی ہے، تو اس کو کسی حال میں اپنا ناجائز نہیں۔ مغربی تہذیب کو اختیار کرنا بالکل جائز نہیں، اس لیے کہ یہ اپنی بنیاد اور زندگی کے بارے میں تصور اور انسان کی سعادت کے بارے میں اسلامی تہذیب سے بالکل متصادم ہے۔
مغرب کی تہذیب دین کے زندگی سے الگ ہونے کی بنیاد پر قائم ہے اور وہ اس بات کی بھی منکر ہے کہ زندگی میں دین کا کوئی اثر ہے۔ چنانچہ اس کے نتیجے کے طور پر دین کی ریاست سے علیحدگی کی فکر پیدا ہوئی۔کیونکہ یہ اس شخص کے لیے ایک طبعی بات ہے جو دین کو زندگی سے جدا کرتا ہے اور زندگی میں دین کے وجود کا انکار کرتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کی زندگی قائم ہے اور زندگی کا نظام برقرار ہے۔اس کی رُو سے زندگی کا نقشہ ہی منفعت ہے کیونکہ یہی اعمال کا معیار ہے۔ اسی لیے اس نظام کی بنیادہی منفعت پر ہے اور اسی پر تہذیب کی بھی بنیاد ہے۔ چنانچہ اس نظام اور تہذیب میں منفعت کا ایک واضح مفہوم ہے کیونکہ اس میں حیات کا تصور ہی یہ ہے کہ یہ بھی ایک منفعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک سعادت یہ ہے کہ انسان کو زیادہ سے زیادہ جسمانی تمتع اور اس کے اسباب مہیا کیے جائیں۔ اس لیے مغربی تہذیب ایک خاص منفعت پرستانہ تہذیب ہے اور اس میں منفعت کے علاوہ کسی اور چیز کا کوئی وزن نہیں۔یہ صرف منفعت کا اعتراف کرتی ہے اور اس کو اعمال کا معیار قرار دیتی ہے۔ روحانی پہلو اس میں انفرادی نوعیت کاہے جس کا جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور یہ (روحانی پہلو)کنیسہ اور رجال کنیسہ تک ہی محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں اخلاقی یا روحانی یا انسانی قیمت کا کوئی وجود نہیں۔اس میں صرف مادی اور نفعی قیمت کا تصور ہے۔اسی وجہ سے اس میں انسانی اعمال کو ان تنظیموں کے تابع بنایا گیا جو ریاست سے جدا ہیں۔جیسے ’’صلیبِ احمر‘‘ (ریڈ کراس)اور ’’عیسائی تبلیغی مشنز‘‘ اور زندگی سے مادی قیمت یعنی فائدے کے علاوہ ہر قیمت کو ہٹایا دیا گیا ہے۔پس مغربی تہذیب زندگی کے بارے میں انہی تصورات کا مجموعہ ہے۔
اسلامی تہذیب اس اساس پر قائم ہے جو مغربی تہذیب کی اساس کے متضاد ہے اور زندگی کا نقشہ اس کے نزدیک مغربی تہذیب کی زندگی کے نقشے سے بالکل مختلف ہے۔اسلامی تہذیب میں سعادت کا مفہوم مغربی تہذیب میں اس کے مفہوم سے بالکل جدا ہے۔اسلامی تہذیب اللہ پر ایمان رکھنے کی بنیاد پر قائم ہے اور اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات، انسان اور حیات کا ایک نظام بنایا ہے، جس پر وہ چلتے ہیں، اور اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسلام کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ یعنی اسلامی تہذیب اسلامی عقیدے کی اساس پر قائم ہے۔ اسلامی عقیدہ اللہ تعالیٰ، ملائکہ، آسمانی کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن پر ایمان لانے اور قضا و قدر کے خیر و شر کے من جانب اللہ ہونے کو کہتے ہیں۔چنانچہ یہ عقیدہ ہی اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے اور یہ ایک روحانی بنیاد پر قائم ہے۔ اسلامی تہذیب میں زندگی کا نقشہ اسلام کے اس فلسفے سے واضح ہوتا ہے جو اسلامی عقیدے سے پھوٹتا ہے اور جس پر زندگی اور زندگی میں انسان کے اعمال قائم ہیں۔یہ فلسفہ مادہ اور روح سے مرکب ہے۔ یعنی اعمال کو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق بجا لانا ہی زندگی کے تصور کی بنیاد ہے۔ چنانچہ انسانی عمل مادہ ہے اور انسان جب وہ عمل سر انجام دیتا ہے تو اس وقت اس بات کا ادراک کرنا کہ’’ اس عمل کے حلال یا حرام ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا ‘‘روح ہے۔ لہٰذا یہ روح اور مادے کا مرکب ہے۔اسی وجہ سے مسلمان کے اعمال کا محرک اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق اعمال کی انجام دہی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، صرف منفعت نہیں۔ کسی عمل کو سر انجام دینے کا ارادہ اس عمل کی انجام دہی کی قیمت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ قیمت اعمال کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ کبھی تو یہ قیمت صر ف مادی ہوتی ہے جیسے نفع کے ارادے سے تجارت کرنا۔ کیونکہ انسان کا تجارت کرنا ایک مادی عمل ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اسے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق سرانجام دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ وہ قیمت، جس کا اس عمل کی انجام دہی رعایت کرتا ہے وہ نفع ہے اور وہ اس کی مادی قیمت ہے۔
کبھی قیمت روحانی ہوتی ہے جیسے نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ وغیرہ، اور کبھی قیمت اخلاقی ہوتی ہے جیسے سچائی، امانت داری اور وفاداری۔ بعض دفعہ قیمت انسانی ہوتی ہے جیسے ڈوبنے والے کو بچانا یا مصیبت زدہ کی مدد کرنا۔ انسان جب کوئی عمل سرانجام دیتا ہے تو انہی قیمتوں کا لحاظ رکھتا ہے۔ مگر یہ اعمال کا محرک نہیں ہوتیں اور یہ اعلیٰ معیار نہیں کہ اعمال کی انجام دہی کے وقت ان کو ہدف بنایا جائے۔ بلکہ یہ عمل کی قیمت اور اعمال کے مختلف ہونے کی صورت میں مختلف ہوتی ہیں۔ سعادت تو اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے نہ کہ انسانی حا جات کو پورا کرنا۔کیونکہ انسان کی تمام حا جات یعنی عضویاتی حا جات یا جبلتوں کی حا جات کو پورا کرنا انسان کی ذات کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ یہ کوئی سعادت کا ذریعہ نہیں۔
یہ ہے زندگی کا نقشہ !اور یہ ہے وہ بنیاد! جس پر یہ نقشہ قائم ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے اور مغربی تہذیب کے بالکل متضاد ہے جیسا کہ اس سے نکلنے والی تمدن کی اشکال مغربی تہذیب سے نکلنے والی مدنی اشکال کے بالکل متضاد ہیں۔مثلاً تصویر ایک تمدنی شکل ہے اور مغربی تہذیب ایک ایسی عریاں نسوانی تصویر کو، جس میں نسوانی اعضا کے حسن و جمال کو خوب نمایاں کیا گیا ہو، ایک تمدنی شکل قرار دیتی ہے اور یہ عورت کے بارے میں ان کی زندگی کے تصورات سے ہم آہنگ ہے۔ اس لیے ایک مغربی انسان اسے ایک فنی شہ پارہ سمجھتا ہے اور ایک تمدنی شکل کے طور پر اس پر فخر کرتا ہے جبکہ اس میں فنی کمال کی تمام شرائط پوری طرح پائی جائیں۔لیکن یہ شکل اسلامی تہذیب سے متضاد ہے اور عورت کے بارے میں اس کے تصورات کے بالکل خلاف ہے، جن کی رُو سے عورت ایک آبرو ہے اور اس کی حفاظت فرض ہے۔ اس لیے یہ تہذیب ایسی تصویر کشی کو ممنوع قرار دیتی ہے کیونکہ یہ جبلتِ نوع کو بھڑکانے اور اخلاقی انار کی کی طرف لے جانے کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح جب مسلمان گھر بنانے کا ارادہ کرتا ہے جو ایک تمدنی شکل ہے، تو وہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ عورت جب گھر میں حالت تبذل (مختصر لباس پہن کر کام کاج میں لگنا)میں ہو تو اس پر باہر کے لوگوں کی نظر نہ پڑے۔ چنانچہ وہ اس کے گرد چار دیواری بناتا ہے، برخلاف مغربی آدمی کے، کہ وہ اپنی تہذیب کے مطابق ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتا۔ اسی طرح وہ تمام تمدنی اشکال جو مغربی تہذیب سے نتیجے کے طور پر نکلتی ہیں جیسے مجسمے وغیرہ اور اسی طرح کپڑے، اگر وہ کفار کے ساتھ ان کے کفار ہونے کے اعتبار سے خاص ہوں، تو مسلمان کے لیے ان کو پہننا جائز نہیں۔ کیونکہ وہ (کپڑے)ایک خاص نقطۂ نظر کے حامل ہیں۔اگر کپڑے، اس طرح کے ہوں کہ جن سے ان کے مخصوص کافرانہ تعارف کی پہچان نہ ہوتی ہو، بلکہ انہوں نے ضرورت کے طور پر یا زینت کے لیے ان کو استعمال کرنا ہو، تب یہ عام تمدنی اشکال میں شمار ہو ں گے اور ان کا استعمال جائز ہو گا۔
جہاں تک ان تمدنی اشکال کا تعلق ہے جو سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ہیں، جیسے لیبارٹریوں کے آلات، طبی آلات، فرنیچر اور قالین اور اسی قسم کی دوسری چیزیں، یہ سب عالمی تمدنی اشکال ہیں۔ ان کو اختیار کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ کیونکہ یہ کسی خاص تہذیب کی پیداوار یا اس سے متعلق نہیں ہیں۔
اس مغربی تہذیب پر، جس کی پوری دنیا پر حکومت ہے، ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے نظر آئے گا کہ مغربی تہذیب انسانیت کو اطمینان کی ضمانت دینے سے بالکل قاصر ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ تو انسانیت کے لیے اس بدبختی کا سبب ہے جس کے کانٹوں پر پوری دنیا کروٹیں لے رہی ہے اور اس کی سلگائی ہوئی آگ میں جل رہی ہے۔ وہ تہذیب، جو دین کی زندگی سے جدائی کو اپنی بنیاد قرار دے رہی ہے، انسانی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ وہ تہذیب، جو عام زندگی میں روحانیت کو کوئی وزن نہیں دیتی اور زندگی کا تصور اس کے نزدیک صرف منفعت ہے، اور انسان اور انسان کے درمیان تعلق بھی صرف منفعت ہی کاہے، اس تہذیب کا نتیجہ صرف بدبختی اور دائمی پریشانی ہی ہو سکتا ہے۔ پس جب تک منفعت اس کی بنیاد رہے گی اس وقت تک یہ تنازع طبیعی ہے اور ا س کے راستے میں جھگڑنا ایک فطری امر ہے۔اس طرح انسانوں کے مابین تعلقات کے قیام کے لیے قوت پر بھروسہ کرنا اس تہذیب کی رُو سے ایک طبیعی امر ہے۔اسی وجہ سے اس تہذیب کے حامل افراد کے نزدیک استعمار بھی ایک طبعی امر ہے۔چنانچہ اس تہذیب کے ہاں اخلاق بھی ہمیشہ ڈانواں ڈول ہی رہیں گے، کیونکہ صرف منفعت ہی اس کی زندگی کی بنیاد ہے۔ لہٰذا یہ طبعی بات ہے کہ زندگی سے اخلاقِ کریمہ نکل جائیں جس طرح کہ روحانی قیمتوں کو نکال دیا گیا تو زندگی مقابلے، جھگڑے، دشمنی اور استعمار کی بنیاد پر استوار ہو گئی۔پس آج دنیا میں انسانوں کے اندر روحانی المیوں، دائمی پریشانی اور پھیلا ہوا شر اس مغربی تہذیب کے نتائج کی بہترین دلیل ہے۔ کیونکہ آج پوری دنیا پر اسی تہذیب کی حکومت ہے اور اس نے ان خطرناک نتائج کو پیدا کیا اور چنانچہ یہی آج پوری دنیا کے لیے خطرہ ثابت ہو رہی ہے۔
اسلامی تہذیب پر نظر ڈالنے سے، جو چھٹی صدی عیسوی سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی تک، دنیا پر حکومت کرتی رہی، معلوم ہوتا ہے کہ وہ استعمار نہیں تھی، بلکہ استعماریت اس کی طبیعت میں بھی شامل نہیں تھی۔کیونکہ اس نے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کبھی فرق نہیں کیا۔پس اس کی تمام مدتِ حکمرانی میں، ان تمام اقوام کو عدالت کی ضمانت حاصل تھی، جو ا س کے زیرِ سایہ تھے۔کیونکہ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو اس روحانی بنیاد پر قائم ہے، جو مادی، روحانی، اخلاقی اور انسانی قیمتوں کو متحقق کرتی ہے اور یہ عقیدہ ہی اس تہذیب میں مدارِ زندگی ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کا تصور اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق چلنا ہے اور سعادت کے معنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ہے۔ پس یہ اسلامی تہذیب، پہلے کی طرح دنیا پر حکمرانی کرے گی تو دنیا کے تمام بحرانوں کے حل کے لیے کافی ہو گی اور پوری انسانیت کی خوشحالی کی ضمانت دے گی۔
****