صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
قرآن مجید اور نسائیات
نا معلوم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
تمہید
اسلام میں نسائیات کے موضوع پر غور کرنے سے پہلے اس نکتہ کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ اسلام نے ان افکار کا مظاہرہ اس وقت کیا ہے جب باپ اپنی بیٹی کو زندہ دفن کر دیتا تھا اور اس جلادیت کو اپنے لیے باعث عزت و شرافت تصور کرتا تھا عورت دنیا کے ہرسماج میں انتہائی بے قیمت مخلوق تھی اولاد ماں کو باپ سے ترکہ میں حاصل کیا کرتی تھی لوگ نہایت آزادی سے عورت کا لین دین کیا کرتے تھے اور اس کی رائے کی کوئی قیمت نہیں تھی حد یہ ہے کہ یونان کے فلاسفہ اس نکتہ پر بحث کر رہے تھے کہ اسے انسانوں کی ایک قسم قرار دیا جائے یا یہ ایک ایسی انسان نما مخلوق ہے جسے اس شکل و صورت میں انسان کے انس و الفت کے لیے پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ اس سے ہرقسم کا استفادھ کرسکے استفادھ کرسکے ورنہ اس کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دور
حاضر میں آزادی نسواں اور تساوی حقوق کا نعرہ لگانے والے اور اسلام پر طرح
طرح کے الزامات عائد کرنے والے اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ عورتوں کے
بارے میں اس طرح کی با عزت فکراور اس کے سلسلہ میں حقوق کا تصور بھی اسلام
ہی کا دیا ہوا ہے ورنہ اس کی طرح کی با عزت فکر اور اس کے سلسلہ میں حقوق
کا تصور بھی اسلام ہی کا دیا ہوا ہے ورنہ اس نے ذلت کی انتہائی گہرائی سے
نکال کر عزت کے اوج پر نہ پہونچا دیا ہوتا تو آج بھی کوئی اس کے بارے میں
اس انداز سے سوچنے والا نہ ہوتا یہودیت اور عیسائیت تو اسلام سے پہلے بھی
ان موضوعات پر بحث کیا کرتے تھے انھیں اس وقت اس آزادی کا خیال کیوں نہیں
آیا اور انھوں نے اس دور میں مساوی حقوق کا نعرہ کیوں نہیں لگایا یہ
آج عورت کی عظمت کا خیال کہاں سے آ گیا اور اس کی ہمدردی کا اس قدر جذبہ
کہاں سے آ گیا ؟
درحقیقت یہ اسلام کے بارے میں
احسان فراموشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ جس نے تیر اندازی سیکھائی اسی کو
نشانہ بنا دیا اور جس نے آزادی اور حقوق کا نعرہ دیا اسی پر الزامات عائد
کر دیے۔بات صرف یہ ہے کہ جب دنیا کو آزادی کا خیال پیدا ہوا تواس نے یہ
غور کرنا شروع کیا کہ آزادی کا یہ مفہوم تو ہمارے دیرینہ مقاصد کے خلاف ہے
آزادی کا یہ تصور تو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ ہرمسئلہ میں اس کی مرضی کا
خیال رکھا جائے اور اس پرکسی طرح کا دباؤ نہ ڈالا جائے اور اس کے حقوق کا
تقاضا یہ ہے کہ اسے میراث میں حصہ دیا جائے اسے جاگیرداری اور سرمایہ کا
شریک تصور کیا جائے اور یہ ہمارے تمام رکیک ، ذلیل اور فرسودہ مقاصد کے
منافی ہے لہذا انھوں نے اسی آزادی اور حق کے لفظ کو باقی رکھتے ہوئے مطلب
برآری کی نئی راہ نکالی اور یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ عورت کی آزادی
کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہے چلی جائے اور اس کے مساوی حقوق کا
مفہوم یہ ہے کہ وہ جتنے افراد سے چاہے رابطہ رکھے اس سے زیادہ دور حاضر کے
مردوں کو عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے یہ عورت کوکرسی اقتدار پر بٹھاتے
ہیں تواس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور اس کے برسراقتدار لانے میں کسی
نہ کسی صاحب قوت و جذبات کا ہاتھ ہوتا ہے ،اور یہی وجہ ہے کہ وہ قوموں کی
سربراہ ہونے کے بعد بھی کسی نہ کسی سربراہ کی ہاں میں ہاں ملاتی رہتی ہے
اور اندرسے کسی نہ کسی احساس کمتری میں مبتلا رہتی ہے اسلام اسے صاحب
اختیار دیکھنا چاہتا ہے لیکن مردوں کا آلہ کاربن کر نہیں ۔وہ اسے حق
اختیار و انتخاب دینا چاہتا ہے لیکن اپنی شخصیت، حیثیت، عزت اور کرامت کا
خاتمہ کرنے کے بعد نہیں۔اس کی نگاہ میں اس طرح کا اختیار مردوں کو حاصل
نہیں ہے تو عورتوں کا کہاں سے حاصل ہو جائے گا جب کہ اس کی عصمت و عفت کی
قدر و قیمت مردسے زیادہ ہے اور اس کی عفت جانے کے بعد دوبارہ واپس نہیں
آتی ہے جب کے مرد کے ساتھ ایسی کوئی پریشانی نہیں ہے۔
اسلام
مردوں سے بھی یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جنس تسکین کے لیے قانون کا دامن نہ
چھوڑیں اور کوئی قدم ایسا نہ اٹھائیں جوان کی عزت و شرافت کے خلاف ہو
چنانچہ ان تمام عورتوں کی نشاندہی کر دی گئی جن جنسی تعلقات کا جواز نہیں
ہے ان تمام صورتوں کی طرف اشارہ کر دیا گیا جن سے سابقہ رشتہ مجروح ہوتا
ہے اور ان تمام تعلقات کو بھی واضح کر دیا جن کے بعدپھردوسرا جنسی تعلق
ممکن نہیں رہ جاتا ایسے مکمل اور مرتب نظام زندگی کے بارے میں یہ سوچنا کہ
اس نے یکطرفہ فیصلہ کیا ہے اور عورتوں کے حق میں ناانصافی سے کام لیا ہے
خود اس کے حق میں ناانصافی بلکہ احسان فراموشی ہے ورنہ اس سے پہلے اسی کے
سابقہ قوانین کے علاوہ کوئی اس صنف کا پرسان حال نہیں تھا اور دنیا کی ہر
قوم میں اسے نشانہ ظلم بنا لیا گیا تھا۔
اس مختصر
تمہید کے بعداسلام کے چند امتیازی نکات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جہاں
اس نے عورت کی مکمل شخصیت کا تعارف کرایا ہے اور اسے اس کا واقعی مقام
دلوایا ہے ۔
٭٭٭