صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


عہد گم گشتہ — استاد محبوب نرالے عالم

راشد اشرف

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

چند حقائق

ہمارے سامنے ایک خاتون اپنی اشکبار آنکھیں لیے بیٹھی تھی، اس کی والدہ اور بڑی بہن افسردہ بیٹھے تھے، ذکر مرحوم استاد محبوب نرالے عالم کا تھا، کمرے کی فضا بوجھل ہو چلی تھی، دکھ، حیرت، رنج و غم، کتنے ایسے جذبے تھے جو ہمیں پوری طرح گرفت میں لے چکے تھے۔ یا خدا، کیا یہ اسی شہر نگاراں (کراچی) کا قصہ ہے کہ جہاں زیادہ تر نفع و نقصان کی بنیاد پر لوگوں سے تعلقات رکھے جاتے ہیں۔ہم سوچتے ہیں اس مضمون کی ابتدا کیسے اور کہاں سے کریں۔ خیال آیا کہ یہی مناسب رہے گا کہ واقعات کو بلا کم و کاست بیان کرتے چلیں کہ ابن صفی صاحب کے پڑھنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت تو صفی صاحب اپنی تحریروں کے ذریعے سے آج تک خود کرتے ہیں۔دسمبر بیس 2009 کی صبح جب ہم محمد حنیف صاحب (ابن صفی ڈاٹ انفو) کی ارسال کی ہوئی لگ بھگ پانچ سال پرانی اخباری خبر پر درج کراچی کے علاقے اورنگی کے پتے کو اپنی والدہ کے ہمراہ (کہ جن کی برکت سے وادی اردو پر موجود ابن صفی صاحب سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کی کھوج ممکن ہوتی چلی گئی جن پر ماضی کی گرد پڑچکی تھی) اور ایک کرم فرما جناب امجد اسلام کی رفاقت میں ڈھونڈنے نکلے تو کامیابی کا امکان صرف ایک فیصد تھا۔ اورنگی کی گلیوں میں بھٹکتے، لوگوں سے رہنمائی کے خواستگار، بلآخر ہم اس جگہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے کہ جو اس خانماں برباد انسان کا عرصہ 15 سال تک آخری ٹھکانہ کہلایا جسے سری ادب کے بے تاج بادشاہ جناب ابن صفی نے دنیا کے روبرو استاد محبوب نرالے عالم کے نام سے روشناس کروایا۔ دروازے پر دھڑکتے دل کے ساتھ دستک دی تو ایک خاتون سامنے آئیں۔ یوں تو ہم منزل مراد پر پہنچ کر بھی ناکام لوٹ آتے کہ گھر کا مرد موجود نہ تھا لیکن ہماری والدہ کی موجودگی کی بنا پر گھر کے اندر رسائی ممکن ہو پائی اور یوں صفی صاحب کے حوالے سے ایک اور بند دروازہ ہم پر کھلا، برق رفتاری سے امتداد زمانہ کی نظر ہوتے ایک عہد کے مخفی گوشے آشکار ہوئے۔بے نوا شاعر، ابن صفی صاحب کے قلم کی زبان میں ’’ادیف‘‘ (ادیب)، شریف النفس و درویش صفت انسان اور زمانے کی ناقدری کا شکار حرماں نصیب، استاد محبوب نرالے عالم کا پتہ ملا۔

 

آگے بڑھنے سے قبل ایک ذرا یہاں ابن صفی صاحب ہی کے ناولز سے اس محبوب نرالے عالم کے کردار کا جائزہ لیں جسے صفی صاحب نے عمران سیریز میں امر کر دیا۔ واضح رہے کہ درج ذیل اقتباسات استاد کی ابن صفی صاحب سے دوران ملاقات کہی ہوئی وہ باتیں ہیں جنہیں صفی صاحب نے تقریباً من و عن عمران سیریز میں استعمال کیا ہے۔ ان میں سے کئی باتوں کی تصدیق استاد کے مرتب کردہ اس ذاتی رجسٹر سے ہوئی جو استاد کے وسیع القلب اہل خانہ (جنہوں نے استاد کو 15 برس اپنے گھر میں محبت و عقیدت کے ساتھ رکھا) نے ہمیں مرحمت کیا تھا:


 

ڈاکٹر دعاگو (1)


یہ تھے استاد محبوب نرالے عالم۔ بے پناہ قسم کے شاعر۔شاعر کس پائے کے ہوں گے، یہ تو تخلص ہی سے ظاہر تھا۔ اتنا لمبا چوڑا تخلص شاید ہی کسی مائی کے لال کو نصیب ہوا ہو۔ استاد کا کہنا تھا کہ بڑا شاعر وہی ہے جس کے یہاں انفرادیت بے تحاشا پائی جاتی ہو، لہذا ان کا کہا ہوا شعر ہمیشہ بے وزن ہوتا تھا۔ بسر اوقات کے لیے پھیری لگا کر مسالے دار سوندھے چنے بیچتے تھے۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جو بھی پکڑ پاتا بری طرح جکڑ لیتا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ سننے سنانے کے چکر میں استاد ہفتوں دھندے سے دور رہتے۔ بڑے بڑے لوگوں سے یارانہ تھا، پھر عمران کیسے محروم رہتا۔

’’کوئی عمدہ سا شعر استاد‘‘ – عمران انہیں کی میز پر جمتا ہوا بولا

استاد نے منہ اوپر اٹھایا۔ تھوڑی دیر ناک بھوں پر زور دیتے رہے پھر جھوم کر بولے ’’سنیے‘‘

حسن کو آفتاب میں صنم ہو گیا ہے

عاشقی کو ضرور بے خودی کا غم ہو گیا ہے

پھر بولے۔ ’’پچھلی رات مچھ میں غالب کی روح حلول کر گئی تھی، سنو:

تم بھلا باز آؤ گے غالب

راستے میں چڑھاؤ گے غالب

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

’’یہ تو وزن دار ہے استاد‘‘ – عمران حیرت سے بولا

‘‘ میں نے بتانا نا غالب کی روح حلول کر گئی تھی، پھر وزن کیسے نہ ہوتا‘‘


 

ڈاکٹر دعاگو (2)

 

‘‘ اور جی یہ لوگ میری اردو شاعری کی قدر کرتے ہیں لیکن میں اسے کچھ بھی نہیں سمجھتا- میرا اصل رنگ دیکھنا ہو تو فارسا میں سنیے‘‘


’’فارسا‘‘ ۔ ڈاکٹر دعاگو نے حیرت سے کہا

 

’’یہ بھی مصیبت ہے‘‘ ۔ عمران نے سر ہلا کر کہا ۔ ‘‘ استاد کی شاعری میں نر ۔ مادہ ہو جاتا ہے اور مادہ – نر! اس لیے ان کی گرفت میں آتے ہی فارسی بھی فارسا ہو جاتی ہے۔ ہاں تو ہو جائے استاد فارسا میں کچھ‘‘

 

استاد نے حسب عادت چھت کی طرف منہ اٹھا کر ناک بھوں پر زور دینا شروع کر دیا۔ پھر بولے ’’سُنیے‘‘

 

نظر خُمی خُمی، نظر گُمی گُمی، نظر سُمی سُمی

دھمک شک فزوں، فضا فسرونی، حیا لبم لبم

عشر خموشگی، خمو عشر فشاں، نمو زوم زوم

قلی و قل ونی، وقل، فنوقنی قنا قلم قلم

نظر خُمی خُمی، نظر گُمی گُمی، نظر سُمی سُمی

’’بس بسں‘‘ ڈاکٹر دعاگو ہاتھ اٹھا کر ناخوشگوار لہجے میں بولا۔ ‘‘ آپ سے ان کا کیا رشتہ ہے‘‘ ۔ اس نے عمران سے پوچھا۔

قبل اس کے عمران کچھ کہتا، استاد نے اچھل کر ایک شعر عنایت کر دیا:


٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول