صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
شہرِنگار
سرور عالم راز سرورؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
میرا جانا نہ ہو ا آپ کا آنا نہ ہوا
بات اتنی تھی مگر اس پہ یہ افسانہ ہوا
جان دینے میں مجھے عذر نہیں ہے لیکن
ہاں اگر پھر بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوا؟
گر گیا ہوگا لہوآ نکھ سے انجانے میں
ورنہ کب ہم کو ترا درد گوار ا نہ ہوا؟
زخم دل ، خون جگر، زخم الم، خون امید
دامن اپنا کبھی شرمندۂ گر یہ نہ ہوا
تھی خبر چار طرف تیری مسیحائی کی
کیوں ترا غم مرے حق میں ہی مسیحا نہ ہوا؟
عشق میں روز نیا رنج ہو ایسا تو ہوا
اور مشکل کوئی حل ہو کبھی ایسا نہ ہوا
لٹ گئے جان و جگر، صبر و سکون وایماں
تو بتا تیری علمداری میں کیا کیا نہ ہوا؟
تیرا بننے کی کشاکش میں ہوئی شام حیات
غم تو یہ ہے کہ اسی غم میں خود اپنا نہ ہوا
سرور سوختہ ساماں کی شکایت کیسی ؟
اس کو کب ہوش ہے ؟دیوانہ تو دیوانہ ہوا
****
قصۂ غم سنا کے دیکھ لیا
جان اپنی جلا کے دیکھ لیا
خاک میں مل ملا کے دیکھ لیا
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
دل پہ جو اختیار تھا نہ رہا
خوب سمجھا بجھا کے دیکھ لیا
دل کا کیا ہے رہا رہا نہ رہا
ہاں تجھے آزما کے دیکھ لیا
ہو سکے ہم نہ پھر بھی خود اپنے
خود کو تیر ا بنا کے دیکھ لیا
ایک باقی ہے جان سے جانا
اور سب کچھ لٹا کے دیکھ لیا
کھل گئے راز ہائے بزم غزل
شعر اپنے سنا کے دیکھ لیا
اتنی آساں نہیں وفا کیشی
دل بتوں سے لگا کے دیکھ لیا
جی رہے ہو امید پر سرو ر ؟
عشق کی چوٹ کھا کے دیکھ لیا؟
***