صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
آسماں کی نیلی جھیل
فواد احمد
جمع و ترتیب:اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
تمہارے لئے مسکراتی سحر ہے
ہمارے لئے رات کا یہ نگر ہے
اکیلے یہاں بیٹھ کر کیا کریں گے
بلایا ہے جس نے ہمیں وہ کدھر ہے
پریشاں ہوں کس کس کا سرمہ بناؤں
یہاں تو ہر اک کی اسی پر نظر ہے
ا جالا ہیں رخسار جادو ہیں آنکھیں
بظاہر وہ سب کی طرح اک بشر ہے
وہ جس نے ہمیشہ ہمیں دکھ دیئے ہیں
تماشہ تو یہ ہے وہی چارہ گر ہے
نکل کر وہاں سے کہیں دل نہ ٹھہرا
بچارہ ابھی تک یہاں دربدر ہے
کسی دن یہ پتھر بھی باتیں کرے گا
محبت کی نظروں میں اتنا اثر ہے
جو پلکوں سے گِر جائے آنسو کا قطرہ
جو پلکوں میں رہ جائے گا وہ گہر ہے
وہ ذلت وہ خواری بھی اس کے سبب تھی
محبت کا سہرہ بھی اس دل کے سر ہے
کوئی آ رہا ہے کوئی جا رہا ہے
سمجھتے ہیں دنیا کو خالہ کا گھر ہے
نہ کوئی پیام اس کی جانب سے آیا
نہ ملتا کہیں اب مرا نامہ بر ہے
٭٭٭
ہمارے دل کی بجا دی ہے اس نے اینٹ سے اینٹ
ہمارے آگے کبھی اس کا نام مت لینا
اسی نگاہ سے پینے میں لطف ہے سارا
علاوہ اس کے کوئی اور جام مت لینا
اسی سبب سے ہے دنیا میں آسماں بدنام
تم اپنے ہاتھ میں یہ انتظام مت لینا
دل و نظر کی بقا ہے فقط محبت میں
دل و نظر سے کوئی اور کام مت لینا
یہاں پہ اچھا ہے جتنا بھی مختصر ہو قیام
ذلیل ہو گے حیاتِ دوام مت لینا
یہ سارے لوگ تمہارا مذاق اڑاتے ہیں
جہاں میں اور محبت کا نام مت لینا
رہو گے چاند کی سرگوشیوں سے بھی محروم
کسی سے دھوپ کا جلتا کلام مت لینا
اگرچہ تم پہ ہوا ہے یہاں پہ ظلم بہت
کسی سے اس کا مگر انتقام مت لینا
٭٭٭