صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
درد کی نیلی رگیں
فرزانہ نیناں
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
اک وراثت کی طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں
گٹھڑیاں باندھ کے اس دل کے نگر آتی ہیں
جتنا بھی چاہوں درِ یار سے بچ کر نکلوں
تہمتیں اتنی زیادہ مرے سَر آتی ہیں
اتنی سی بات پہ اچھی نہیں شوریدہ سری
شام کو چڑیاں تو سب اپنے ہی گھر آتی ہیں
شرم سے الجھے دوپٹے کی جو کھولوں گر ہیں
دل کی نیناں رگیں سب کھلتی نظر آتی ہیں
٭٭٭
جسے ڈبو کے گیا تھا حباب پانی میں
لہر وہ کھاتی رہی پیچ و تاب پانی میں
کبھی تو تارِ رگِ جاں بھی چھیڑ کر دیکھو
بجانے جاتے ہو اکثر رباب پانی میں
تری نگاہ بہت ہے مرے لئے ساقی
نہ گھول مجھ کو بنا کر شراب پانی میں
خبر چھپی ہے جو لڑکی کی وہ نئی تو نہیں
اُتر گئی تھی جو ہو کر خراب پانی میں
پھر اپنی آگ بجھانے کوئی کہاں جائے
لگائے آگ اگر ماہتاب پانی میں
گہر ہمارے بھی نیناں کے دیکھ لو آ کر
تمام سیپ نہیں لا جواب پانی میں
***
دل سے مت روٹھ مرے ، دیکھ منا لے اس کو
کھو نہ جائے کہیں سینے سے لگا لے اس کو
وہ مسافر اسے منزل کی طرف جانا تھا
اس لئے کر دیا رستے کے حوالے اس کو
مدتوں وجد میں رہتے ہوئے دیوانے کو
ہوش آیا ہے تو ہر بات سنا لے اس کو
کس لئے اب شبِ تاریک سے گھبراتی ہوں
خود ہی جب بخش دیئے سارے اجالے اس کو
کچھ ضروری تو نہیں آپ کو سب کچھ مل جائے
جو ملے کیجئے دامن کے حوالے اس کو
نیلگوں جھیل میں ہے چاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئے سنبھالے اس کو
اپنے بے سمت بھٹکتے ہوئے نیناں کی قسم
کتنے خوش بخت ہیں سب دیکھنے والے اس کو
***