صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


نذر اقبالؔ

ترتیب: اعجاز عبید


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

تعلیماتِ اقبال. مولانا محمد علی جوہر


دسمبر 1918ء کا زمانہ تھا کہ ہمارے دوست (جو پیشہ اور علم کے اعتبار سے ڈاکٹر سر محمد اقبال ایم۔ اے ، پی ایچ ڈی بیرسٹر یٹ لا کے نام سے موسوم ہیں ) کے پاس سے یکے بعد دیگرے دو پتلی جلدیں وصول ہوئیں ۔ گو ان کی وصولی کا درمیانی وقفہ زیادہ نہ تھا، تاہم ایسی نادر اور پر اثر تصانیف کا انتظار میرے لیے صبر آزما تھا۔

دیگر لاکھوں ہندی مسلمانوں کی طرح ، جو واقف ہونے کے باوجود اقبال سے ناواقف تھے ، میں بھی برسوں سے ’’اقبال‘‘ کو جانتا تھا اور کچھ عرصہ سے جب کبھی مجھے کسی کام پر لاہور جانا پڑتا تو میں ان کا مہمان ہوتا، اور دیکھتا کہ وہ وکالت صرف اسی حد تک کرتے کہ ان کے حقہ کا معمولی خرچ نکل سکے ۔ باقی وقت وہ اپنے پسندیدہ ادبیات اور فلسفہ کے مطالعہ اور زیادہ تر اس پر اثر شاعری میں صرف کرتے جس کے ذریعہ وہ ہندی مسلمانوں کے دلوں کو مسخر کر رہے تھے ۔ جبکہ دوسروں کو اقبال کی نظامت و ذہانت سے آگاہی حاصل کئے برسوں گزر چکے تھے ۔ میں نے اقبال کا ایک شعر بھی نہ پڑھا تھا، البتہ میں اس بات کا دعویٰ کر سکتا ہوں کہ جب یکبارگی اقبال کے کلام نے مجھے مسحور کیا تو میں نے ایک حد تک اس کی تلافی کی اور اس طرح کہ اردو رسالوں اور اخباروں میں ان کا جو کلام شائع ہوتا اس کو بار بار پڑھتا اور میرا اخبار (ہمدرد) پڑھنے والے اقبال کا کلام پڑھ کر جو مسرت محسوس کرتے میں ان کی مسرت میں شریک ہوتا۔ میرؔ کو مستثنیٰ کئے بغیر غالب (جو غالباً اردو زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور جو خود میرؔ کی برتری کا معترف ہے ) کے اشعار اردو صحافت میں کبھی اس قدر زیادہ نہیں پیش کئے گئے جتنا کہ کامریڈ میں لیکن اب کامریڈ اور ہمدرد کے کالم اقبال کے اشعار سے مزین ہونے لگے جو غالباً غالب کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے ۔

بحیثیت شاعر اقبال بیسویں صدی کے ہند میں اسلامی نشاۃ الثانیہ کے علمبردار تھے اور اسلامی ہند اس پنجابی گوشہ نشین اور شرمیلے بیرسٹر سے زیادہ کسی اور کا ممنون نہیں ۔ اردو داں دنیائے اسلام کا کوئی گھر ایسا نہیں جو اقبال سے ناواقف ہو اور بلا شبہ میں ان کا قدردان اور عاشق تھا۔ اگر کسی نے اقبال سے عقیدت رکھنے میں مجھ سے برابری کی بلکہ مجھ سے بازی لے گیا وہ میرے بھائی (شوکت علی) تھے ، جو اپنی تقاریر میں اس والہانہ وارفتگی کے ساتھ، جو ان کو اقبال کے کلام سے تھی، ان کے اشعار اس کثرت سے استعمال کرتے کہ میں جذبۂ رشک کو دبانے کی تمام کوششوں کے باوجود ان کا مذاق اڑا تاکہ وہ اپنی بے جان فصاحت و بلاغت سے سامعین کے جوش و خروش کو بیدار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکتے اگر وہ اقبال کے اشعار اس کثرت سے استعمال نہ کرتے ۔

لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اس دفعہ اقبال نے اپنی مثنوی فارسی میں لکھی ہے جس کے لیے انہیں اور مجھے اس فارسی کی تحصیل کو تازہ کرنے کی ضرورت تھی جو ہم نے برسوں پیشتر اپنے لال داڑھی والے ملا صاحب سے رامپور میں سیکھی تھی۔ انہوں نے زور و شور کے ساتھ اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ بہرحال ہم نے اقبال کی اسرار خودی پڑھنی شروع کی اور بتدریج ان کا غصہ فرو ہونے لگا کیونکہ ہم نے محسوس کیا کہ اقبال کی یہ مثنوی ان کے گزشتہ کلام سے کہیں زیادہ بلند پایہ ہے اور اس کے ذریعہ وہ دنیائے اسلام کے ایک بڑے حصہ تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو اردو کے ذریعہ ممکن نہ تھا ان کے آتش فشانی اردو کلام کے مقابلہ میں ابتداً ان کی مثنوی بے جان اور سرد معلوم ہوئی لیکن جونہی ابتدائی باب ختم ہوا جس میں انہوں نے اپنے فلسفہ کا موضوع پیش کیا ہے اور اپنے مشرقی مطالعہ کنندگان کے آگے پرانی اصطلاحات کے نئے معنوں کی وضاحت کی ہے اور جس کے بعد وہ بجائے پی۔ ایچ ۔ ڈی کے شاعر کے روپ میں جلوہ گر ہوئے ہیں ۔ ہم نے محسوس کیا کہ مرمر کی مورتوں میں بھی زندگی کا سیل آتشیں دوڑنے لگا ہے ۔ کامریڈ کی ضمانت کے مقدمہ میں جب مجھے متعدد مرتبہ لاہور جانا پڑا تو میں نے ان کی زبان سے ان کے مثنوی کے بعض حصے سنے تھے جبکہ وہ لکھی جا رہی تھی لیکن جس طرح کہ قرآن مجید کے معاملہ میں ہوا تھا یہاں بھی میں نے سامنے کے درختوں کو دیکھ کر پیچھے کے عظیم الشان صحرا کا اندازہ لگا لیا تھا، لیکن جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا بتدریج پورا خاکہ میری نظروں کے سامنے آتا گیا اور میری خوشی کی کوئی انتہاء نہ تھی جب میں نے دیکھا کہ یہ فلسفی شاعر اپنے انوکھے انداز میں اسلام کے انہیں بنیادی حقائق کو پیش کرتا ہے جن کا خود میں نے مشکل تمام ادراک کیا تھا۔

یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ اسلامی ادبیات میں یہ چیز عام طور پر بیان کی جاتی ہے کہ اسلام کے معنی خدا کو کائنات کا حاکم مطلق تسلیم کرنا اور اس کی مرضی کے آگے اپنی گردن جھکا دینا ہیں ، لیکن ہمارے مفتیان دین کی نظر میں یہ بات اتنی معمولی تھی کہ وہ اسے درخور اعتنا نہ سمجھے نہ تھے اور ہم اس کی کنہ سے بالکلیہ لا علم ہونے کے باوجود یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ گویا پوری طرح واقف ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی اور ضرورت تھی کہ نئی قوت اور پورے زور کے ساتھ اس کی اصل حقیقت سے لوگوں کو واقف کرایا جائے ۔ اس امر کے لیے کہ مسلمان مقصد زندگی سے آگاہ ہو کر سچے مسلمانوں کی زندگی بسر کریں ، پورے منظر کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی اور یہی حقیقت تھی جس کا میں نے اپنے طور پر ادراک کیا تھا اور اسی نقطہ نظر کو لئے اقبال پھر ایک دفعہ مسلمانوں کے ذہنوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ حکومت الٰہیہ قائم ہو سکے ۔ پیش پا افتادہ اقدار میں تبدیلی کی ضرورت کا اندازہ اس وقت مشکل نہیں ہوتا جبکہ دوسری جلد (رموز بیخودی) میں اقبال حلف لے کر بیان کرتے ہیں کہ ان کا لفظ لفظ قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے ، نہ کہ جرمنی فلسفہ پر ، جیسا کہ علماء نے خیال کرنا شروع کیا تھا۔

اقبال کی دوسری مثنوی رموز بیخودی اس شاہراہ کو نشان زد کرتی ہے جس کی زمین ہموار کرنے کا کام ان کی پہلی مثنوی اسرار خودی نے کیا تھا اور اب منزل مقصود کا پا لینا ایک اندھے کے لیے بھی دشوار نہ تھا، جب تک ایک متعین مقصد کے ذریعے راستہ صاف نہ کیا جائے اقبال کے نقطۂ نظر سے زندگی ایک صحرا ہے اور خود آگہی یعنی خودی کی حقیقت کو پا لینا گویا زندگی کے مقصد کو پا لینا ہے ۔یہی وہ مشیت الٰہی ہے جس کے لیے حکومت الٰہی کا کائنات پر ظہور ہوا جب ایک دفعہ آدمی مقصد حیات اور کائنات کی مخلوقات میں جاری و ساری مشیت الٰہی کو پا لیتا ہے تو درمیانی تمام مزاحمتیں تاراج ہو جاتی ہیں ۔ حقیقی انا (خودی) کا ادراک اور اقرار گویا غیر حقیقی انا کا نابود کرنا ہے اور زندگی کی الجینات اپنی ناگزیر جنگ جوئی اسلام کے دیرپا امن عامہ کے دامن میں عافیت پاتی ہیں ۔ اسلامی پیغام اور اس کے دستور اخلاق کے اہم خدوخال کی تشریح کرتے ہوئے اقبال نے بھی قومیت کی مذمت کی ہے جو انسانی ہمدردیوں کے حلقہ اثر کو محدود کر دیتی ہے اور نوع انسانی میں تفریق و تشتت کا باعث ہوتی ہے ۔

انگریزی سے ترجمہ:

احمد اللہ خان (ایم۔اے )

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول