صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اقلیمِ نعت کا معتبر سفیر سید نظمی مارہروی
ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
حضورسید شاہ برکت اللہ مارہروی قدس سرہٗ نے عربی میں ’’عشقیؔ ‘‘ اور ہندی میں ’’پیمیؔ ‘‘ تخلص اختیار کیا۔ ’’پیم پرکاش‘‘ کے نام سے آپ کا دیوان طبع ہو چکا ہے۔ ذیل میں آپ کے دو ریختے نشانِ خاطر فرمائیں ؎
ابی بکر و عمر پن، عثمان علی بکھان
ست، نیتی اور لاج اَتی بدّیا بوجھ سبحان
………
مورکھ لوگ نہ بوجھی ہیں دھرم کرم کی چھین
ایک تو چاہیں ادھک کے ایک تو دیکھیں ہین
آپ کے قلمِ گل رنگ سے نکلا ایک شاہ کار عربی سلام تو شہرت و مقبولیت کے اوجِ ثریا تک پہنچا ہوا اور زباں زدِ خاص و عام ہے، چند اشعار خاطر نشین ہوں ؎
یا شفیع الوریٰ سلام علیک
یا نبی الھدیٰ سلام علیک
خاتم الانبیا سلام علیک
سید الاصفیا سلام علیک
سیدی یا حبیبی مولائی
لک روحی فدا سلام علیک
ھٰذا قول غلامک عشقیؔ
منہ یا مصطفی سلا م علیک
حضور سید شاہ برکت اللہ پیمی ؔ و عشقیؔ مارہروی کے علاوہ سید شاہ حمزہ عینیؔ مارہروی، سید شاہ ابوالحسین نوریؔ مارہروی، تاج العلما اولادِ رسول محمد میاں فقیرؔ مارہروی، سید شاہ آلِ عبا مارہروی، سید شاہ آلِ مصطفی سیدؔ میاں مارہروی،سید شاہ مصطفی حیدر حسنؔ مارہروی نے بھی دنیائے شعر وسخن میں اپنی فکر و نظر کے گہرے نقوش ثبت فرمائے ہیں۔ نظمی مارہروی نے اسی سلسلۂ شعر و ادب کو آگے بڑھاتے ہوئے میدانِ سخن میں قدم رکھا اور بے طرح کامیاب ہیں۔ آپ کوپیمیؔ ، عشقیؔ ، عینیؔ ، نوریؔ جیسے ہم قافیہ تخلص کی طرح ’’نظمی‘‘تخلص حضرت سید شاہ آلِ عبا صاحب مارہروی نور اللہ مرقدہٗ نے عطا فرمایا۔ بہ قولِ نظمی:
’’یہ دادا حضرت کی برکت ہے کہ آج یہ تخلص میرے لیے سعادت کا دوسرا نام ہے۔‘‘
(نظمی مارہروی:بعد از خدا…،ص۴۰)
اس مقام پر پہنچ کر یہ بتا نے کی ضرورت نہیں کہ نظمی مارہروی کو فنِ شاعری ورثے میں ملا۔ آپ کے والدِ ماجد حضور سید العلما سید آلِ مصطفی سیدؔ میاں نور اللہ مرقدہٗ اپنے وقت کے عظیم مفتی، طبیبِ حاذق، خطیب، ادیب، مفکر، مدبر اور قادر الکلام شاعر گذرے ہیں۔ آپ کا اشہبِ فکر نعتیہ اور بہاریہ دونوں رنگ میں شاعری کیا کرتا تھا۔ آپ کے بعض اشعار زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ مثلاً ؎
کسی کی جَے وِجَے ہم کیوں پکاریں کیا غرض ہم کو
ہمیں کافی ہے سیدؔ اپنا نعرہ یارسول اللہ
چمن کا ہر گل و غنچہ سلام کہتا ہے
حسین تم کو زمانہ سلام کہتا ہے
ترے پایے کا کوئی ہم نے نہ پایا خواجہ
تو زمیں والوں پہ اللہ کا سایا خواجہ
نظمی مارہروی نے شاعری کا آغاز کم عمری ہی میں کر دیا تھا۔ حضور سید شاہ ابوالحسین نوری ؔ میاں قدس سرہٗ کے عرسِ مقدس کے موقع پر عرس کی دوسری تقریبات میں ایک مشاعرہ بھی ہوتا تھا جو نعتیہ اور بہاریہ دونوں رنگ لیے ہوتاتھا۔حضرت نظمی کے والدِ ماجد حضور سید آلِ مصطفی سیدؔ میاں مارہروی دونوں رنگوں میں کلام لکھ کر ممبئی سے تشریف لاتے تھے۔ اور ان کو مشاعرہ میں پڑھنے کے لیے صحیح تلفظ کی ادائیگی کے ساتھ مکمل مشق حضرت نظمی مارہروی سے کروائی جاتی اور مشاعرے میں وہ کلام آپ ہی سے پڑھوائے جاتے۔ یہیں سے آپ کے اندر بھی شعر گوئی کا شوق پروان چڑھنا شروع ہوا۔ بہ قول نظمی مارہروی :
’’یہیں سے میرے اندر خود اپنے شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔ ابا حضرت کو معلوم ہوا تو پہلی ہدایت یہ فرمائی کہ میں بار بار اعلا حضرت فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا دیوان ’’حدائقِ بخشش‘‘ پڑھا کروں۔ مجھے اس مشق میں کئی ایک نعتیں ازبر ہو گئیں اور مختلف تقاریب میں وہ نعتیں پڑھنے بھی لگا۔ پھر میں نے شاعری شروع کر دی … … … … … پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اعلا حضرت فاضلِ بریلوی کے روضے کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔ مزارِ رضا پر فاتحہ کر کے میں نے اپنے رب سے ایک ہی دعا مانگی:
’اے پروردگار! عشقِ رسول اور نعتِ مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کا جو سمندر تو نے اپنے محبوب بندے احمد رضا کے سینے میں موج زن فرمایا تھا اس کا ایک قطرہ اپنے کرم سے میرے سینے میں بھی ڈال دے‘۔…‘‘
(نظمی مارہروی:بعد از خدا…،ص۴۰/۴۱)
٭٭٭