صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


شرح دیوانِ  غالب

نظم طبابائی


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

شرح دیوانِ  غالب

دل مرا سوزِ  نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کے مانند گویا جل گیا
یعنی چپکے چپکے کس طرح جلا کیا کہ کسی کو خبر نہ ہوئی ، ’ گویا ‘ کا لفظ خاموش کی مناسبت سے ہے ،   ’ مانند ‘ کا لفظ بول چال میں نہیں ہے ، مگر شعراء نظم کیا کرتے ہیں ۔
دل میں ذوقِ  وصل و یاد یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
یعنی رشک کی آگ ایسی تھی کہ معشوق کو دل سے بھلادیا اور اس کا غیر سے ملنا دیکھ کر ذوقِ  وصل جاتا رہا ۔ گھر سے دل مراد ہے اور آگ سے رشکِ رقیب ۔
میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہِ  آتشیں سے بالِ  عنقا جل گیا
مصنف کی غرض یہ ہے کہ میری نیستی و فنا یہاں تک پہنچی کہ اب میں عدم میں بھی نہیں ہوں اور اس سے آگے نکل گیا ہوں ، ورنہ جب تک میں عدم میں تھا ، جب تک میری آہ سے عنقا کا شہپر اکثر جل گیا ہے ، عنقا ایک طائر معدوم کو کہتے ہیں اور جب وہ معدوم ہوا تو وہ بھی عدم میں ہوا اور ایک ہی میدان میں آہِ  آتشیں و بالِ  عنقا کا اجتماع ہوا ، اسی سبب سے آہ سے شہپر عنقا جل  گیا ، لیکن مصنف کا یہ کہنا کہ میں عدم سے بھی باہر ہوں ، اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ میں نہ موجود ہوں ، نہ معدوم ہوں اور نقیضین مجھ سے مرتفع ہیں ، شاید ایسے ہی اشعار پر دلی میں لوگ کہا کرتے تھے کہ غالب شعر بے معنی کہا کرتے ہیں اور اُس کے جواب میں مصنف نے یہ شعر کہا   ؂
نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
پرے کا لفظ اب متروک ہے ، لکھنؤ میں ناسخؔ کے زمانہ سے روزمرہ میں عوام الناس کے بھی نہیں ہے ، لیکن دلی میں ابھی تک بولا جاتا ہے اور نظم میں بھی لاتے ہیں ، میں نے اس امر میں نواب مرزا خاں صاحب داغؔ سے تحقیق چاہی تھی ، اُنھوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ لوگوں کی خاطر سے ( یعنی لکھنؤ والوں کی خاطر سے ) اس لفظ کو چھوڑ دیا ، مگر یہ کہا کہ مومنؔ خاں صاحب کے اس شعر میں   ؂
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منھ
اے شبِ ہجر تیرا کالا منھ
اگر پرے کی جگہ اُدھر کہیں تو برا معلوم ہوتا ہے ، میں نے کہا کہ ’ پرے ہٹ ‘ بندھا ہوا محاورہ ہے ، اس میں ’ پرے ‘ کی جگہ ‘ اُدھر ‘ کہنا محاورہ میں تصرف کرنا ہے ، اس سبب سے برا معلوم ہوتا ہے ، ورنہ پہلے جس محل پر ’ چل پرے ہٹ ‘ بولتے تھے اب اُسی محل پر دور بھی محاورہ ہو گیا ہے ، اس توجیہ کو پسند کیا اور مصرع کو پڑھ کر الفاظ کی نشست کو غور سے دیکھا  :  ’ دور بھی ہو مجھے نہ دکھلا منھ ‘ اور تحسین کی ۔
عرض کیجئے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
یعنی یہ کہاں ممکن ہے کہ اپنی طبیعت کی گرمی ظاہر کرسکوں فقط دشت نوردی کا ذرا خیال کیا کہ صحرا میں آگ لگ اُٹھی اور یہ مبالغہ غیر علوی ہے کہ طبیعت میں ایسی گرمی ہو کہ جس چیز کا خیال آئے وہ چیز جل جائے عرض کو لوگ جوہر کے ضلع کا لفظ سمجھتے ہیں حالاں کہ جوہر کے مناسبات میں سے عرض بہ تحریک ہے نہ بہ سکون ۔
دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا
دل کو کارفرما بنایا ہے اور داغوں کو چراغاں لفظ چراغاں کو چراغ کی جمع نہ سمجھنا چاہئے ۔
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب ؔکہ دل
دیکھ کر طرزِ  تپاک اہل دُنیا جل گیا
طرزِ  تپاک سے تپاک ظاہری و نفاق باطنی مراد ہے اور افسردگی اور جلنا اس کے مناسبات سے ہیں ۔
شوق ، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردہ میں بھی عریاں نکلا
یعنی مجنوں کی تصویر بھی کھنچتی ہے تو ننگی ہی کھنچتی ہے ، اس حال میں بھی عشق دُشمن سر و سامان  ہے ، شوق سے مراد عشق ہے ، ہر رنگ کے معنی ہر حال میں اور ہر طرح سے اگر یوں کہتے کہ شوق ہر طرح رقیب سر و ساماں نکلا جب بھی مصرع موزوں تھا ، لیکن تصویر کے مناسبات میں سے رنگ کو سمجھ کر ہر رنگ کہا اور ہر طرح و بے طرح کو ترک کیا ، مناسبات کے لئے محاورہ کا لفظ چھوڑ دینا اچھا نہیں اور رقیب کے معنی دُشمن کے لئے ہیں ۔
زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا
یعنی زخم دل نے بھی کچھ تنگی دل کی تدبیر نہ کی اور زخم سے بھی دلِ  تنگی کی شکایت دفع نہ ہوئی کہ وہی تیر جس سے زخم لگا وہ میری تنگیٔدل سے ایسا سراسیمہ ہوا کہ پھڑکتا ہوا نکلا تیر کے پر ہوتے ہیں اور اُڑتا ہے ، اس سبب سے پر افشانی جو کہ صفتِ مرغ ہے ، تیر کے لئے بہت مناسب ہے ، مصنف مرحوم لکھتے ہیں یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نئی نکالی ہے ، جیسا کہ اس شعر میں   ؂
نہیں ذریعۂ راحت جراحت پیکاں
وہ زخم تیغ ہے جس کو دل کشا کہئے
یعنی زخم تیر کی توہین بسبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین بسبب ایک طاق سا کھل جانے کے ۔
بوئے گل نالۂ دل دودِ  چراغِ  محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
یعنی تیری بزم سے نکلنا پریشانی کا باعث ہے ، پہلے مصرع میں سے فعل اور حرفِ تردید محذوف ہے ، یعنی پھولوں کی مہک ہو یا شمعوں کا دُھواں ہو یا عشاق کی فغاں ہو ۔
دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ  درد
کام یاروں کا بقدرِ لب و دنداں نکلا
یعنی جس میں جتنی قابلیت تھی اُس نے اُسی قدر مجھ سے لذتِ درد کو حاصل کیا ، ورنہ یہاں کچھ کمی نہ تھی ، کام کا لفظ لب و دنداں کے ضلع کاہے ۔
تھی نو آموز فنا ہمت دُشوار پسند
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
اے ہمت تو باوجود یہ کہ ابھی نو آموز فنا ہے ، کس آسانی سے مرحلۂ فنا کو طے کرگئی ، ہمت کو دُشوار پسند کہہ کر یہ مطلب ظاہر کرنا منظور ہے کہ میری ہمت خوف و خطر میں مبتلا ہونے کو لذت سمجھتی ہے یہ کام اشارہ ہے فنا کی طرف یعنی ہم جانتے تھے کہ جان دینا بہت مشکل کام ہے مگر افسوس ہے کہ وہ بھی آساں نکلا ۔
دل میں پھر گریہ نے اک شور اُٹھایا غالبؔ
آہ ! جو قطرہ نہ نکلا ، تھا سو طوفاں نکلا
یعنی جس گریہ پر میرا ضبط ایسا غالب تھا کہ میں اُسے قطرہ سے کم سمجھتا تھا ، اب وہ طوفان بن کر مجھ پر غالب ہو گیا ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ آنسو کا جو قطرہ کہ آنکھ سے نکلا نہ تھا وہ اب طوفان ہو گیا ۔
_______

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول