صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
تفسیر میں نظمِ قرآن کی اِستدلالی حیثیت
اصولِ تفسیر کی روشنی میں ایک جائزہ
حافظ مبشر حسین لاہوری
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اصطلاحِ ’نظم قرآن‘ کا آغاز
یہ معلوم نہیں کہ قرآن مجید کے نظم و ربط کے سلسلہ میں سب سے پہلے کس صاحب
علم نے گفتگو فرمائی، البتہ متقدمین میں سے جن اصحاب علم نے اس سلسلہ میں
کلام کیا ہے، ان میں امام ابن قتیبہ(۲۱۳ھ۔۲۷۶ھ)ابو الحسن علی بن عیسیٰ
رمانی معتزلی (۲۹۶ھ۔۳۸۳ھ) قاضی عبدالجبار اسد آبادی معتزلی(۳۵۹ھ۔۴۱۵ھ)امام
خطابی (۳۱۹ھ۔۳۸۸ھ) ابن جعفر باقلانی اشعری (۳۳۸ھ۔۴۰۳ھ) عبدالقاہر
جرجانی اشعری (۴۷۱ھ م)کے نام سر فہرست ہیں۔ ابن قتیبہ نے تاویل مشکل
القرآن میں،رمانی نے النکت فی اعجاز القرآن میں،قاضی عبدالجبار نے المغنی
فی ابواب التوحید والعدل کی سولہویں جلد میں،خطابی نے البیان فی اعجاز
القرآن میں، باقلانی نے اعجاز القران میں، جرجانی نے دلائل الاعجاز میں اس
موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ ان اصحاب نے نہ صرف یہ کہ اپنی تصنیفات میں نظمِ
قرآن (نظمِ کلام ) کی اصطلاح استعمال کی، بلکہ نظمِ کلام کو قرآن
مجید کے اعجاز کا محل بھی قرار دیا۔لیکن ان کے ہاں نظمِ کلام سے مراد وہ
مفہوم نہیں تھا جسے متاخرین میں مولانا فراہی و اصلاحی نے متعارف کروایا
ہے، بلکہ ان کے ہاں نظمِ قرآن سے مراد یہ تھا کہ قرآن مجید کے محض الفاظ و
کلمات ہی معجزانہ حیثیت نہیں رکھتے اور نہ فقط ان کے معانی کا یہ
حال ہے، کیونکہ یہی الفاظ و معانی تو عربوں کے ہاں بھی مروج تھے، البتہ ان
الفاظ و معانی کی ترکیب سے جو کلام،قرآنی آیات اور قرآنی جملوں کی شکل میں
پیش ہوتا تھا،وہ معجزہ تھا اور اس جیسی ترکیب پر مبنی ایک سورت بھی پیش
کرنے سے کفار عاجز آ گئے تھے۔ امام خطابیؒ اسی پس منظر میں فرماتے ہیں :
’’قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نظم عمدہ، الفاظ فصیح اور معانی حسین ہیں۔ اس نے توحید کی تعلیم دی، شرک سے اجتناب کی تلقین کی، اطاعتِ الہٰی پر ابھارا، حلال و حرام اور جائز و نا جائز کے ضابطے بتائے، وعظ و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اصول واضح کئے اور ان ساری تعلیمات کو نظم کی لڑی میں اس طرح منسلک کر دیا کہ ذرا سا دھاگہ ٹوٹا اور سارے موتی منتشر ہو گئے۔ قرآنی بلاغت ادب کے تمام اسالیب کی جامع ہے جس کی نظیر انسانی وجود پیش نہیں کر سکتا۔ الفاظ کو اس طرح موبوط بنادیا گیا ہے کہ اگرانہیں ان کے مخصوص مقام سے ہٹا کر کہیں اور رکھ دیا جائے تو مفہوم گڑ بڑ ہو جائے یاوہ چاشنی اور رونق باقی نہ رہے جو قرآن میں موجود ہے۔‘‘۸؎
یہی بات قاضی عبدالجبار معتزلی اس طرح پیش کرتے ہیں :
’’یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ فصاحت مفرد کلمات میں نہیں ہوتی، بلکہ ایک مخصوص طریقہ کو اختیار کر کے کلام میں نظم و ارتباط پیدا کرنے سے فصاحت پیدا ہوتی ہے۔ نظم و تالیف کے ساتھ ہر لفظ کی ایک صفت ہونی چاہیے۔یہ صفت بسا اوقات نظم و ترکیب سے اپنا مقام بناتی ہے اور کبھی اعراب کے ذریعہ اور کبھی موقع و محل سے امتیاز حاصل کر لیتی ہے۔ ان تینوں کے علاوہ کوئی چوتھی شکل نہیں ہے … اگر کوئی شخص اعتراض کرے کہ فصاحت میں حسنِ معنی بھی شامل ہے، پھر تم نے اس کا خیال کیوں نہیں رکھا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ معانی کا حسن گرچہ ناگزیر ہے، لیکن ان میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔اسی وجہ سے یہ صورت حال دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک ہی مفہوم کو ادا کرنے والوں میں سے ایک شخص فصاحت میں دوسرے پر بازی لے جاتا ہے، جبکہ مفہوم دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ معانی میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس صورت میں تفاوت ان لفاظ میں ہو گا جو اظہار کا جامہ زیب کرتے ہیں۔اگر یہ جملہ صحیح ہے تو خصوصیت دراصل تالیف کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس سے کلمات مخصوص ہوتے ہیں، یا تقدیم و تاخیر سے نکھار آتا ہے جو موقع و محل کے لیے خاص ہیں، یا پھر حرکات سے حسن پیدا ہوتا ہے جو اعراب کے ساتھ خاص ہیں اور اسی سے کلام میں امتیاز پیدا ہوتا ہے۔‘‘ ۹؎
نظمِ قرآن بمعنی مُنَاسبتِ آیات و سُوَر:
متقدم علمائے بلاغت کے ہاں نظم کی اصطلاح جس پس منظر میں مستعمل تھی اسے برقرار رکھتے ہوئے اس میں توسیع سب سے پہلے جس مفسر نے کی، وہ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر جاراللہ الزمخشری المعتزلی (۴۶۷ھ۔ ۵۳۸ھ) ہیں۔علامہ زمخشری اس بات کے بھی قائل تھے کہ قرآن مجید اپنے جملوں کی ترکیب و تنظیم کے حسن بلاغت کی وجہ سے معجزہ ہے۔ اس کے مقابلہ کا بلیغ جملہ پیش کرنے سے مخلوق قاصر ہے۔چنانچہ سورہ نساء کی آیت ۱۶۶(وِلٰکِنَّ اللّٰہَ یَشْھَدُ…)کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’اللہ نے قرآن کو اپنے اس علم خاص کے ساتھ نازل کیا ہے جس سے کوئی واقف نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کی ترتیب و تنظیم ایسے سلو ب اور نظم کے مطابق ہے جو ہر صاحبِ بلاغت اور صاحبِ بیان کے بس سے باہر ہے … اور قرآن کی صحت اور صداقت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کا نزول ایسے معجزانہ نظم کے ساتھ ہوا ہے جو ہر کسی کی طاقت سے بلند ہے۔‘‘۱۰؎
زمخشری نے نظم قرآن کی اصطلاح کو مزید وسعت دیتے ہوئے مختلف آیات کے باہمی نظم وربط تلاش کرنے کی طرف بھی توجہ دی۔اس سلسلہ میں انھوں نے جو کوشش کی ہے اس کے چند نمونے سطورِ ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :
۱)…سورۂ اعراف میں حضرت آدمؑ و ابلیس کا واقعہ بیان ہوا ہے اور اس کا اختتام اس آیت پر کیا گیا ہے :
{قَالَ اھْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّوَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّوَّمَتَاعٌ اِلیٰ حِیْنٍ قَالَ فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَفِیْھَاتَمُوْتُوْنَ َمِنْھَا تَخْرُجُوْنَ}[الاعراف:۲۴۔۲۵]
اس کے فوراً بعد یہ آیت ہے :
{یٰبَنِی آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَاعَلَیْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِیْ سَوْآتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ}[الاعراف :۲۶]
اس آیت کا ماقبل سے بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا، مگر زمخشری ان میں نظم ثابت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’یہ آیت سیاقِ کلام سے منقطع ہو کر عَلٰی سَبِیلِ الْاِسْتِطْرَادْ آ گئی ہے۔ اس سے پہلے کے واقعہ میں ہبوطِ آدم کا تذکرہ تھا اور کہا گیا تھا کہ آدم کے ستر کھل گئے اور وہ اپنے جسم کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔یہاں لباس کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ اپنے احسان کا اظہار کر رہا ہے اور اس بات سے باخبر کر رہا ہے کہ ننگا پن اور عریانیت باعثِ فضیحت و رسوائی ہے اور ستر پوشی تقوی کا عظیم باب ہے۔‘‘ ۱۱؎
۲)…سورت نساء میں ایک یہ آیت ہے :
{وَاِنْ کُنْتُمْ مَرْضٰی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجآئَ اَحَدٍ مِّنْکُمْ مِنَ الْغَائِطِ اَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّباً}[النسآء:۴۳]
یہاں صاحب کشاف(زمخشری) نے اس آیت کے ضمن میں پہلے یہ سوال اٹھایا ہے کہ قرآن مجید نے مریضوں،مسافروں، بے وضو ۱ور جنبی لوگوں کو ایک ہی لڑی میں کیونکر پرو دیا ہے، جب کہ بیماری اور سفر تو رخصت کے اسباب ہیں۔حدث وجوب وضو کا سبب ہے اور جنابت وجوبِ غسل کا سبب ہے۔ آخر اس ترتیب و نظمِ کلام کا کیا سبب اور حکمت ہے ؟پھر اس کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’جن لوگوں پر طہارت واجب ہو چکی ہو، لیکن پانی نہ ملنے کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے وہ اس کا استعمال نہیں کر سکتے، ایسے لوگوں کو خدا کی طرف سے مٹی سے تیمم کی رخصت دی جا رہی ہے۔ چنانچہ ان میں سے مریضوں اور مسافروں کو پہلے رخصت دی گئی اور ان کا تذکرہ سب سے پہلے ہوا، کیونکہ یہ لوگ اس لحاظ سے اولیت کے مستحق تھے کہ یہ اسباب بکثرت اور بتکرار پیش آتے ہیں اور ان سے انسان کو زیادہ سامنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بطور عموم ان سب کا ذکر کر دیا گیا جن پر طہارت واجب ہو اور وہ پانی کے استعمال پر قاد ر نہ ہوں، خواہ دشمن یا درندوں کے خوف سے یا برتن نہ ہونے کی وجہ سے یا پانی نہ ملنے کی وجہ سے۔کیونکہ مرض اور سفر کے مقابلہ میں یہ عوارض کم پیش آتے ہیں۔‘‘ ۱۲؎
نظمِ قرآن کے سلسلہ میں آیات کی باہمی مناسبت پر جو گفتگو علامہ زمخشری کے ہاں ملتی ہے وہی آگے امام رازی (۵۴۴ھ۔۶۰۶ھ ) کے ہاں بھی ملتی ہے، مگر زمخشری ہی کی طرح رازی کے ہاں بھی یہ متفرق طور پر کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے، پھر ان کے بعد امام بقاعی(۸۸۵ھ م) نے بھی اس طرف توجہ کی اور’’ نظم الدررفی تناسب الآیات والسور ‘‘ نامی اپنی تفسیر میں آیتوں اور سورتوں کے باہمی ربط و نظم پر کافی کام کیا۔اسی طرح شیخ مخدوم علی مہائمی (۷۷۶ھ۔ ۸۳۵ھ) امام سیوطی (۸۴۹ھ۔۸۹۱۱ھ) شیخ محی الدین ابن عربی صوفی(۵۶۰ھ۔۶۳۸ھ) علامہ ابو جعفر ابن الزبیر(۶۲۷۔ ۷۰۸ھ) ابوالحسن علی بن احمد الحرالی( ۶۳۷ ھ م) نے بھی نظم و مناسبت کی رعایت سے تفاسیر لکھی ہیں۔
٭٭٭’’قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نظم عمدہ، الفاظ فصیح اور معانی حسین ہیں۔ اس نے توحید کی تعلیم دی، شرک سے اجتناب کی تلقین کی، اطاعتِ الہٰی پر ابھارا، حلال و حرام اور جائز و نا جائز کے ضابطے بتائے، وعظ و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اصول واضح کئے اور ان ساری تعلیمات کو نظم کی لڑی میں اس طرح منسلک کر دیا کہ ذرا سا دھاگہ ٹوٹا اور سارے موتی منتشر ہو گئے۔ قرآنی بلاغت ادب کے تمام اسالیب کی جامع ہے جس کی نظیر انسانی وجود پیش نہیں کر سکتا۔ الفاظ کو اس طرح موبوط بنادیا گیا ہے کہ اگرانہیں ان کے مخصوص مقام سے ہٹا کر کہیں اور رکھ دیا جائے تو مفہوم گڑ بڑ ہو جائے یاوہ چاشنی اور رونق باقی نہ رہے جو قرآن میں موجود ہے۔‘‘۸؎
یہی بات قاضی عبدالجبار معتزلی اس طرح پیش کرتے ہیں :
’’یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ فصاحت مفرد کلمات میں نہیں ہوتی، بلکہ ایک مخصوص طریقہ کو اختیار کر کے کلام میں نظم و ارتباط پیدا کرنے سے فصاحت پیدا ہوتی ہے۔ نظم و تالیف کے ساتھ ہر لفظ کی ایک صفت ہونی چاہیے۔یہ صفت بسا اوقات نظم و ترکیب سے اپنا مقام بناتی ہے اور کبھی اعراب کے ذریعہ اور کبھی موقع و محل سے امتیاز حاصل کر لیتی ہے۔ ان تینوں کے علاوہ کوئی چوتھی شکل نہیں ہے … اگر کوئی شخص اعتراض کرے کہ فصاحت میں حسنِ معنی بھی شامل ہے، پھر تم نے اس کا خیال کیوں نہیں رکھا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ معانی کا حسن گرچہ ناگزیر ہے، لیکن ان میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔اسی وجہ سے یہ صورت حال دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک ہی مفہوم کو ادا کرنے والوں میں سے ایک شخص فصاحت میں دوسرے پر بازی لے جاتا ہے، جبکہ مفہوم دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ معانی میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس صورت میں تفاوت ان لفاظ میں ہو گا جو اظہار کا جامہ زیب کرتے ہیں۔اگر یہ جملہ صحیح ہے تو خصوصیت دراصل تالیف کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس سے کلمات مخصوص ہوتے ہیں، یا تقدیم و تاخیر سے نکھار آتا ہے جو موقع و محل کے لیے خاص ہیں، یا پھر حرکات سے حسن پیدا ہوتا ہے جو اعراب کے ساتھ خاص ہیں اور اسی سے کلام میں امتیاز پیدا ہوتا ہے۔‘‘ ۹؎
نظمِ قرآن بمعنی مُنَاسبتِ آیات و سُوَر:
متقدم علمائے بلاغت کے ہاں نظم کی اصطلاح جس پس منظر میں مستعمل تھی اسے برقرار رکھتے ہوئے اس میں توسیع سب سے پہلے جس مفسر نے کی، وہ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر جاراللہ الزمخشری المعتزلی (۴۶۷ھ۔ ۵۳۸ھ) ہیں۔علامہ زمخشری اس بات کے بھی قائل تھے کہ قرآن مجید اپنے جملوں کی ترکیب و تنظیم کے حسن بلاغت کی وجہ سے معجزہ ہے۔ اس کے مقابلہ کا بلیغ جملہ پیش کرنے سے مخلوق قاصر ہے۔چنانچہ سورہ نساء کی آیت ۱۶۶(وِلٰکِنَّ اللّٰہَ یَشْھَدُ…)کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’اللہ نے قرآن کو اپنے اس علم خاص کے ساتھ نازل کیا ہے جس سے کوئی واقف نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کی ترتیب و تنظیم ایسے سلو ب اور نظم کے مطابق ہے جو ہر صاحبِ بلاغت اور صاحبِ بیان کے بس سے باہر ہے … اور قرآن کی صحت اور صداقت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کا نزول ایسے معجزانہ نظم کے ساتھ ہوا ہے جو ہر کسی کی طاقت سے بلند ہے۔‘‘۱۰؎
زمخشری نے نظم قرآن کی اصطلاح کو مزید وسعت دیتے ہوئے مختلف آیات کے باہمی نظم وربط تلاش کرنے کی طرف بھی توجہ دی۔اس سلسلہ میں انھوں نے جو کوشش کی ہے اس کے چند نمونے سطورِ ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :
۱)…سورۂ اعراف میں حضرت آدمؑ و ابلیس کا واقعہ بیان ہوا ہے اور اس کا اختتام اس آیت پر کیا گیا ہے :
{قَالَ اھْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّوَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّوَّمَتَاعٌ اِلیٰ حِیْنٍ قَالَ فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَفِیْھَاتَمُوْتُوْنَ َمِنْھَا تَخْرُجُوْنَ}[الاعراف:۲۴۔۲۵]
اس کے فوراً بعد یہ آیت ہے :
{یٰبَنِی آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَاعَلَیْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِیْ سَوْآتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ}[الاعراف :۲۶]
اس آیت کا ماقبل سے بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا، مگر زمخشری ان میں نظم ثابت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’یہ آیت سیاقِ کلام سے منقطع ہو کر عَلٰی سَبِیلِ الْاِسْتِطْرَادْ آ گئی ہے۔ اس سے پہلے کے واقعہ میں ہبوطِ آدم کا تذکرہ تھا اور کہا گیا تھا کہ آدم کے ستر کھل گئے اور وہ اپنے جسم کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔یہاں لباس کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ اپنے احسان کا اظہار کر رہا ہے اور اس بات سے باخبر کر رہا ہے کہ ننگا پن اور عریانیت باعثِ فضیحت و رسوائی ہے اور ستر پوشی تقوی کا عظیم باب ہے۔‘‘ ۱۱؎
۲)…سورت نساء میں ایک یہ آیت ہے :
{وَاِنْ کُنْتُمْ مَرْضٰی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجآئَ اَحَدٍ مِّنْکُمْ مِنَ الْغَائِطِ اَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّباً}[النسآء:۴۳]
یہاں صاحب کشاف(زمخشری) نے اس آیت کے ضمن میں پہلے یہ سوال اٹھایا ہے کہ قرآن مجید نے مریضوں،مسافروں، بے وضو ۱ور جنبی لوگوں کو ایک ہی لڑی میں کیونکر پرو دیا ہے، جب کہ بیماری اور سفر تو رخصت کے اسباب ہیں۔حدث وجوب وضو کا سبب ہے اور جنابت وجوبِ غسل کا سبب ہے۔ آخر اس ترتیب و نظمِ کلام کا کیا سبب اور حکمت ہے ؟پھر اس کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’جن لوگوں پر طہارت واجب ہو چکی ہو، لیکن پانی نہ ملنے کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے وہ اس کا استعمال نہیں کر سکتے، ایسے لوگوں کو خدا کی طرف سے مٹی سے تیمم کی رخصت دی جا رہی ہے۔ چنانچہ ان میں سے مریضوں اور مسافروں کو پہلے رخصت دی گئی اور ان کا تذکرہ سب سے پہلے ہوا، کیونکہ یہ لوگ اس لحاظ سے اولیت کے مستحق تھے کہ یہ اسباب بکثرت اور بتکرار پیش آتے ہیں اور ان سے انسان کو زیادہ سامنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بطور عموم ان سب کا ذکر کر دیا گیا جن پر طہارت واجب ہو اور وہ پانی کے استعمال پر قاد ر نہ ہوں، خواہ دشمن یا درندوں کے خوف سے یا برتن نہ ہونے کی وجہ سے یا پانی نہ ملنے کی وجہ سے۔کیونکہ مرض اور سفر کے مقابلہ میں یہ عوارض کم پیش آتے ہیں۔‘‘ ۱۲؎
نظمِ قرآن کے سلسلہ میں آیات کی باہمی مناسبت پر جو گفتگو علامہ زمخشری کے ہاں ملتی ہے وہی آگے امام رازی (۵۴۴ھ۔۶۰۶ھ ) کے ہاں بھی ملتی ہے، مگر زمخشری ہی کی طرح رازی کے ہاں بھی یہ متفرق طور پر کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے، پھر ان کے بعد امام بقاعی(۸۸۵ھ م) نے بھی اس طرف توجہ کی اور’’ نظم الدررفی تناسب الآیات والسور ‘‘ نامی اپنی تفسیر میں آیتوں اور سورتوں کے باہمی ربط و نظم پر کافی کام کیا۔اسی طرح شیخ مخدوم علی مہائمی (۷۷۶ھ۔ ۸۳۵ھ) امام سیوطی (۸۴۹ھ۔۸۹۱۱ھ) شیخ محی الدین ابن عربی صوفی(۵۶۰ھ۔۶۳۸ھ) علامہ ابو جعفر ابن الزبیر(۶۲۷۔ ۷۰۸ھ) ابوالحسن علی بن احمد الحرالی( ۶۳۷ ھ م) نے بھی نظم و مناسبت کی رعایت سے تفاسیر لکھی ہیں۔