صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


نظریاتی ادب

شاہ رشاد عثمانی

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                             نظریاتی ادب

ادب میں نظر یے کے استعمال و اظہار سے اب کسی کو مجال انکار نہیں ، آج کا ہر قلمکار جس تصور کو بھی اپنی پسند کا نظریہ سمجھتا ہے اسے اپنی فکری بنیاد بنا کر اس پر اپنے ادب کی عمارت تعمیر کرنے میں مصروف ہے خواہ وہ نظریہ تمام نظریوں سے انکار اور ناوابستگی پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔ نظریاتی زندگی کی ضروریات سے بے تعلق اور غیر جانبدار بن کر غیر نظریاتی انداز میں آ کر پرورش پانے والے ادب کی آج کوئی حقیقت نہیں ، ایسا ادب گویا خلاء میں آوارہ ہے۔ ادب نظریہ کے سہارے کے بنا آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ادب میں نظریہ کہ اہمیت کو اقبال نے بڑے بلیغ انداز میں پیش کیا ہے۔

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

آج ادب و زندگی میں جو انتشار اور نراج ہے، وہ کسی مثبت نظریہ اور تعمیر ی لائحہ عمل سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایساکامل اور حیات بخش نظریہ ’’ اسلام ‘‘کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ گذشتہ نصف صدی میں ایسے جیالے فنکار بڑی تعداد میں دنیائے ادب میں سامنے آئے جنہوں نے اسلامی اقدار حیات پر اپنے ادب کی بنیاد ڈالی، اقبال نے اپنے یقین و عمل کی روشنی اور اخلاقی و روحانی تصورات کی تابانی سے فکر و فن کا جو چراغ جلایا تھا، آج اکیسویں صدی میں وہ پوری تابانیوں کے ساتھ روشن ہے، روشن ہی نہیں بلکہ اس کی ضیا باریوں سے ہزاروں شمعیں جل رہی ہیں۔

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

یہاں اب میرے راز داں اور بھی ہیں

اردو میں تحریک ادب اسلامی کے آغاز و ارتقاء، رفتار و ترقی ، فکری بنیادوں ، رشتوں اور تقاضوں ساتھ ہی مختلف اصناف ادب ، مثلاً : فکشن ، شاعری اور تنقید کے تعلق سے اسلام پسند اہل قلم کی خدمات کے مجموعی جائزے پر مشتمل اپنے چند مضامین پیش خدمت کر رہا ہوں ، تاکہ آپ کے سامنے تحریک ادب اسلامی کا مختصر تعارف ایک نظر میں آ جائے۔ یہی افادیت اس مجموعۂ مضامین کے اشاعت کا جواز ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ موجودہ عالمی تناظر میں تحریک ادب اسلامی کے مسائل اور امکانات کا جائزہ لیا جائے آج ہم جس صارفی سماج میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ ایک طرف تو سائنس و ٹکنالوجی کی روز افزون ترقی کا دور ہے انسان سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر رہا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے ، دوسری طرف عالمگیریت کے نرغے یاست کے سائے تلے ہانپ رہے ہیں اور یہی کون آشام عالمی منظر نامہ ہمارے عہد کا اضطراب ہے یہ تمام حالات ایک ادیب بلکہ کسی بھی حساس شہری کا سکون قلب چھیننے کیلئے کافی ہیں ، ان حالات میں ادب کی ضرورت دو چند ہو جاتی ہے کیونکہ ادب ہی وہ دستاویز ہے جس کی مدد سے ان تمام سفاک حقیقوں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے اس ظلم و جبر و ناانصافی اس خونریزی و نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا جا سکتا ہے اور موثر احتجاج اپنے آپ میں خود ایک جہاد ہوتا ہے ، چنانچہ ایسا ادب ہی نظام باطل کے بدلنے کا نقیب اور انقلاب صالح کا پیش رو ہوتا ہے۔

تحریک ادب اسلامی گزشتہ نصف صدی سے ادب میں توازن کو بروئے کار لانے ، فنی آداب اور تہذیبی اقدار کے درمیان مکمل ارتباط قائم کرنے کیلئے ملک کے تعمیری رجحانات رکھنے والے تمام اہل قلم کو متحرک کر رہی ہے اس نے ماضی میں بھی فن کی جمالیات کو فکر کی اخلاقیات سے ہم آہنگ کرنے، ادیب کو اپنے عہد کے سنگین اقتصادی    نے زندگی کی صورت ہی بدل دی ہے گلوبلائزیشن کا مطلب دراصل کمرشیلائزیشن اور ایک عامیانہ و سوقیانہ تہذیب کا فروغ ہے ذرائع ابلاغ کی برق رفتاری ، فلموں کی چکا چوند اور نتیجہ میں عریانی و فحاشی اور مادی اقدار کی غیر مشروط بالادستی نے عام آدمی کو شعر و ادب سے بیگانہ کر دیا ہے اب غالب وا قبال کے اشعار کی جگہ اشتہاروں کی بھدی تک بندیاں گونجتی ہیں ، اقتصادی خوشحالی کی دوڑ میں انسان زندگی کے اعلیٰ پہلوؤں سے اجنبی ہوتا جا رہا ہے ،آج ہر چیز نفع و نقصان کی ترازو میں تولی جا رہی ہے تیسری طرف ہمارا یہ دور جنگ و جدال اور خونریزی کا دور ہ مغربی سیاست کی استعمامریت ، امریکہ و برطانیہ کے جنگ پرستی اور دہشت گردی، نوسامراجی استحصال و جارحیت ، عراق اور افغانستان پر غیر قانونی جنگیں لاد کر ان کی تباہی و بربادی، ایران کو ہمہ وقت جنگ کے سائے میں دہشت زدہ کرنے کی جابرانہ کوششیں ، مشرقی اقوام کو ذہنی طور پر محکوم بنا کر ان کے آرٹ کلچر زبان اور تہذیب کو مٹانے کی پرُ اسرار چالیں ، آج ہم مغرب کی اس جارحانہ ، تہذیبی اور روحانی عدم توازن کا حل تلاش کرنے اور ایسی تمام کوششوں کو تقویت پہنچانے کے لئے فنکاروں کی ایک پوری نسل کو سرگرم سفر کیا تھا اور آج بھی نئی نسل کے با شعور ادباء و شعراء خدا پرستی ، انسان دوستی اور حمایت مظلوم کے اعلیٰ و ارفع جذبات سے سرشار ہیں اور منظم جدوجہد کر رہے ہیں۔

آخر میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض ذہنوں میں آج بھی ادب کے ساتھ اسلام کا لاحقہ غلط فہمی اور الجھن کا باعث بنا ہوا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جدید ادب کا ایک اہم معنویتی کشش رکھنے والا منظر نامہ اسلام پیش کر رہا ہے اسے اب تک جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے یا اس کی تحقیر کی گئی ہے وہ علمی عصبیت کی عبرتناک مثال ہے سب سے عبرت انگیز بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں نے اپنے شعرو ادب میں ایمان کعبہ نماز مصلی سجدہ عابد زاہد جنت دوزخ وغیرہ کا دیدہ دلیری کے ساتھ مذاق اڑایا ہے اور اس کے برخلاف میخانہ، شراب زند ساقی پیمانہ جام صراحی وغیرہ کا اس شان سے ذکر کیا ہے کہ خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد، اچھا تو حرام بن گیا اور حرام حلال اسی طاؤس و رباب کی سرپرستی نے مسلم معاشرہ کو زوال آمادہ اور ان کے اقتدار کو کرم خورہ بنا دیا ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اب صورت حال بدل رہی ہے اسلام عصر حاضر کا ایک اہم حوالہ بن چکا ہے ، زندگی کے تمام دائرے اور علوم و فنون کو اسلامیانے (islamisation )کا عمل جاری ہے ظاہر ہے کہ ہمارے ادب کا شعبہ بھی اس سے الگ نہیں رہ سکتا ، آج ساری دنیا میں اسلامی انقلاب کا غلغلہ بلند ہو چکا ہے اس سلسلہ میں ہمیں کسی احساس کمتری ، مرعوبیت اور تحفظات کا شکار نہیں ہونا چاہئے بقول جگر مرادآبادی ؂

نمود صبح کاذب ہی دلیل صبح صادق ہے

افق سے زندگی کی دیکھ یہ ابھری کرنے ساقی

رشاد عثمانی

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول