صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


بنظرِ قاسمی

دو مضامین

ابو الکلام قاسمی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

    کلاسیکی اردو شاعری میں طنز و مزاح کی روایت

کلاسیکی اردو شاعری سنجیدہ،  نیم سنجیدہ،  طنزیہ،  مزاحیہ یا دانش و حکمت پر مبنی اشعار کا ایک نگار خانہ ہے۔  اس نگار خانے میں موضوع کے تنوع کے ساتھ لہجے اور لسانی ہنر مندی کا ہر روپ اور ہر رنگ موجود ہے۔  اس لئے اپنے کلاسیکی شعری سرمایے کی بازیافت سے ہمیں ہر طرح کے اسالیب اظہار کا سراغ مل سکتا ہے۔  مگر اس شعری سرمایے کی کلیت بسا اوقات اس لئے معرضِ اشتباہ میں محسوس کی گئی کہ ہمارے تذکرہ نگاروں نے اپنے تاثراتی تنقیدی آرا کے ذریعہ کچھ ایسی استناد سازی کی کوشش کی تھی۔ جس کے باعث قدرے غیر سنجیدہ اور تفنن طبع پر مبنی ہلکی پھلکی شاعری کو سند اعتبار سے ساقط قرار دیے جا نے پر زور دیا گیا۔  عام سماجی اور ثقافتی موضوعات کے برتاؤ میں عوامی انداز بیان اور اسالیب اظہار پر سوقیت سے لے کر ابتذال تک کے الزامات عائد کئے گئے۔  تاہم یہ بات کچھ کم غنیمت نہ تھی کہ اہم اور مستند شعراء کا شعری سرمایہ کبھی اس حد تک نظر انداز نہیں کیا گیا کہ اس کی اشاعت میں تسلسل باقی نہ رہتا۔  اتفاق یہ تھا کہ تذکروں کی اس نوع کی تنقیدی رائے زنی کو ادبی تاریخ نویسوں یا قدیم نقادوں نے اگر مسترد نہیں کیا تو اسے پوری طرح قبول بھی نہیں کیا۔  اس پس منظر کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن کلاسیکی اصناف شاعری کی توسیع کا سلسلہ جاری رہا وہ بڑی حد تک غزل کی روایت یا پھر جزوی طور پر قصیدے،  مرثیے اور مثنوی کی روایت تھی۔  قصیدے کی صنف میں سوائے تشبیب کے دو سرے تمام اجزا کو تقریباً بھلا دیا گیا۔  مر ثیہ بڑی حد تک مذہبی حوالوں کے سبب،  اور کسی حد تک فنی صنعت گری کے باعث زندہ رہا اور مثنویوں میں سے محض معدودے چند کو یاد رکھا گیا اور بیش تر پر روایتی بیانیہ اور سپاٹ پن کا اعتراض عائد رہا۔  


 اس صورت حال میں سب سے اہم سوال یہ قائم کیا جاسکتا ہے کہ شہر آشوب،  ہجویہ نظموں ،  واسوخت اور اَن گنت موضوعاتی نظموں کی معنویت کا تعین آج کی بد لی ہوئی صورت حال اور خاصے تبدیل شدہ شعری مذاق کے زمانے میں کیوں کر کیا جا سکتا ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ نظر انداز کی جانے والی اصناف میں ریختی بھی تھی اور ایہام گوئی بھی۔  مگر ان کی اہمیت چوں کہ زمانی اور وقتی تھی،  اس لئے امتدادِ وقت کے ساتھ ان کا از کار رفتہ قرار دیا جا نا کچھ فطری بھی نہیں معلوم ہوتا۔  ان اصناف کے مابین شہر آشوب کی اہمیت بہ ظاہر اس کی سماجی اور ثقافتی معنویت کے سبب غیر معمولی تھی۔  مگر اس صنف میں متعدد سادہ،  زود فہم اور ہلکے پھلکے نمونے پوری صنف کے ہی نظر انداز کر نے کی بنیاد بن گئے۔  جب کہ شہر آشوب میں شاعر کے عہد کا جو المیاتی پہلو محفوظ ہو گیا ہے وہ ایک طر ف جذبات نگاری کی عمدہ مثال ہے اور دو سری طرف ان میں اس عہد کی مصیبت زدہ خلقت کے اجتماعی درد کو تفنن اور تضحیک کے انداز میں گوارہ بنا نے کی کوشش کی گئی ہے۔  پھر شہر آشوب کی صنف کے لئے چوں کہ کسی ہیئت کی قید نہ تھی اس لئے گو یا اس میں ہر انداز بیان اور ہر طرح کی عروضی گنجائش موجود تھی۔  یہی حال کم و بیش ہجویہ،  قصائد اور نظموں کا رہا کہ ان کے وسیلے سے دانش و بینش پر مبنی طنز اور ہجو ملیح کی اَن گنت شکلیں سامنے آسکیں۔   غزل کی صنف میں ایمائی اور مزیہ اسلوب کے طفیل ہر طرح کے موضوعات کو قبول کیا جاتا رہا اور الطاف حسین حالی کے اس اعتراض کے با وجود کہ اس میں علماءفضلا اور بعض مذہبی نمائندوں کو طنز کا نشانہ بنا یا گیا ہے۔  وا عظ، زاہد،  رسمیت پسند ملا یا رقیب کے ساتھ تمسخر کا انداز نہ صرف بر قرار رکھا گیا بلکہ مقبول بھی رہا۔  اس لئے کہ اس طنز یہ اور ہجویہ انداز کو مسترد کر نا بحیثیت مجموعی غزلیہ اظہار کو مسترد کر نے کے مترادف ہوتا ہے۔  

اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول