صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


نوادرات

شمس الرحمن فاروقی

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

منشی امیر اللہ تسلیم لکھنوی

صفدر مرزا پوری اپنی کتاب "مشاطۂ سخن" میں لکھتے ہیں کہ منشی امیر اللہ تسلیم کے مشہور شاگرد عرش گیاوی (مصنف "حیات مومن" اور "حیات تسلیم")کا شعر تھا ؎


ہوں سرخ رو جہان میں وہ دن خدا کرے

میرا ازل سے دانت ہے انگیا کے پان پر


انگیا کے دو کپڑے جن میں چھاتیاں کسی جاتی ہیں، کٹوری کہلاتے ہیں۔ ہر کٹوری خود دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے، بڑے ٹکڑے کو بنگلہ یا دوال اور چھوٹے کو پان کہتے ہیں۔ تسلیم نے شعر کاٹ کر نیچے لکھا:

کیا چھاتیاں کاٹ کھاؤ گے؟

استاد کامل اسے کہتے ہیں۔ عرش کا ایک اور شعر تھا ؎


غضب کا حسن ہے خال لب جاں بخش دلبر میں

کوئی کشتی رواں ہے موج بحر آتش تر میں


اس پر استاد نے لکھا:"خال مشبہ ہے،کشتی مشبہ بہ۔ان دونوں میں وجہ تشبیہ کیا ہے؟صرف الفاظ جمع کر دینے سے کیا فائدہ؟ شعر نکال دو۔" کاش کہ جوش صاحب وغیرہ نے یہ سبق سیکھا ہوتا۔

تسلیم لکھنوی(1819تا1911)بادشاہان اودھ کے یہاں نوکر رہے، اودھ پر آفت ٹوٹی تو رامپور چلے گئے۔وہاں کبھی آرام سے گذری،کبھی تنگی سے۔فارسی کی استعداد بہت اچھی تھی۔ خوشنویس بھی تھے۔ شاعری میں سینکڑوں شاگرد بنائے جن میں حسرت موہانی کا نام سب جانتے ہیں۔ تسلیم بالکل آخر عمر میں آنکھ کے عملیے کے لیے لکھنؤ آئے لیکن بقول حسرت موہانی، "نشتر گہرا لگ گیا۔"اور چند ہی دن کے بعد اللہ کو پیارے ہوئے۔رامپور کی ملازمت کے دوسرے دور میں تسلیم نے نواب حامد علی خان کا سفر نامہ مثنوی کی شکل میں لکھا۔کوئی پچیس چھبیس ہزار شعر کی مثنوی دفتر سرکار میں جمع ہوئی،پھر داخل دفتر ہی رہ گئی،کسی نے اسے غائب کر دیا۔ تسلیم جو صلۂ شعر کی امید چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے تھے،جب دوبارہ رامپور آئے اور مثنوی کا حال انھیں معلوم ہوا تو انھوں نے کہا، "آج سے پیسے روز تیل کا صرف اور سہی۔۔۔ ۔ " پھر معمول یہ کر لیا کہ روز بعد نماز مغرب قلم کاغذ لے کر بیٹھ جاتے اور عشا تک سفر نامہ نظم کرتے۔ جب یہ دفتر لاثانی تیار ہوا تو پہلے سے بہتر کہلایا۔حامد علی خان نے قدردانی کا اظہار کیا اور تسلیم کو پہلے سے بھی زیادہ مشاہرے پر بحال کر دیا۔ یہ واقعہ بقول حسرت موہانی 1907 کا ہے۔یعنی اس وقت تسلیم کی عمر بارہ کم سو برس کی تھی۔

حکیم مومن خان مومن دہلوی کے شاگرد نواب اصغر علی خان نسیم دہلوی، ان کے شاگرد منشی امیر اللہ تسلیم،ان کے شاگرد سید فضل الحسن حسرت موہانی۔مومن اور حسرت بیحد مشہور ہیں، نسیم دہلوی کا نام صرف خواص جانتے ہیں۔ تسلیم کو خواص میں بھی چند ہی لوگ جانتے ہیں ع


اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے

اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول