صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط کی ’’اردو میں حمد و مناجات‘‘ پر کچھ معروضات
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی
لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
’’ اردو میں حمد و مناجات‘‘ محترم ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط کا ایک ایسا منفرد تحقیقی کارنامہ ہے۔ جس کے سبب آپ کی شخصیت دنیائے اردو ادب میں حمدیہ و مناجاتی شاعری کے اولین، باضابطہ محقق و ناقد کے روپ میں سامنے آئی ہے۔ ڈاکٹر یحییٰ نشیط نے اپنے اس جائزے میں بڑی عرق ریزی اور جاں فشانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ موصوف کی یہ کوشش یقیناً لائقِ تحسین ہے۔ (۱) اردو میں حمدیہ شاعری: تاریخ و ارتقا (۲) اردو کی حمدیہ شاعری میں فلسفیانہ رجحان (۳) اردو کی متصوفانہ حمدیہ شاعری (۴) قرآن کا اثر اردو کی حمدیہ شاعری پر (۵) اردو کی مناجاتی شاعری - جیسے ابواب کے توسط سے سید یحییٰ نشیط نے اردو کے قدیم و جدید شعرا کے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے ان میں موجود ادبی و فنی اور دینی و علمی خوبیوں کو تلاش کیا ہے۔ ’’اردو میں حمدیہ شاعری : تاریخ و ارتقا ‘‘ باب میں انھوں نے مذاہبِ عالم میں خدا کے تصور پر بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ ہر مذہب میں کسی نہ کسی طور پر خدا کے تصور کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کا تصور بھی موجود ہے۔ روم و یونان، عراق و مصر،ہندوستان اور کالڈیا کے علاوہ عیسائیت اور اسلام میں خدا کے تصور اور خدا کی تعریف و توصیف کی توضیح کے ساتھ موصوف نے اس بات کا بھر پور خیال رکھا ہے کہ اردو میں حمد یہ شاعری کا ارتقا قارئین کی نظروں میں آ جائے۔ ادب میں اس صنف کا تعین کرنے اور سمت و رفتار کا جائزہ لگانے کے لیے موصوف نے عربی و فارسی ادب میں حمدیہ شاعری کا اجمالی جائزہ بھی اس باب میں لیا ہے۔
ڈاکٹر سیدیحییٰ نشیط اس بات کے اظہار میں حق بہ جانب ہیں کہ حمد و مناجات کا وجود اردو شاعری کے آغاز ہی سے ہو چکا تھا۔ آپ نے اردو میں حمدیہ و مناجاتی شاعری پر متذکرۂ بالا ابواب کے ضمن میں تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے متعدد حمدیہ دواوین، نعتیہ مجموعوں اور دیگر اصناف کی شعری کتب سے اردو کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شاعر کی حمد و مناجات میں صفاتِ خداوندی، تسبیح و تمجید، قرآنی اثرات،فلسفیانہ رجحانات، تصوفانہ رنگ و آہنگ اور خدا کے حضور شعرا کی عاجزی و انکساری وغیرہ کو واضح کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں موصوف جابہ جا قرآنی آیات، احادیث کے حوالے اور تنقیدی تبصرے بڑے ہی معروضی، معتدل اور منطقی طرزِ استدلال کو بروئے کار لا کر بیان کرنے میں کام یاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ ۲۶۴؍ صفحات کی اس کتاب میں تیسرے باب ’’اردو کی متصوفانہ شاعری‘‘ کے علاوہ جملہ چاروں ابواب میں حوالوں کی مجموعی تعداد ۳۹۸ ہے، علاوہ ازیں جن کلیات و دواوین سے حمدیہ و مناجاتی اشعار اس کتاب میں درج کیے گئے ہیں ان کی تعداد فاضل مصنف نے ۹۹ شمار کرائی ہیں، تنقید و تاریخ کی ۱۸، اور ۸ رسائل و جرائد کے ساتھ ’’برہان‘‘ دہلی ’’ نعت رنگ ‘‘ کراچی اور ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ کے مختلف شماروں کو اس کتاب کی تیاری میں بہ طورِ حوالہ پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس کتاب میں حوالوں کی یہ کثرت کتاب کے بلند معیار کا پتا دیتی ہے۔
تاہم ’’ اردو میں حمد و مناجات‘‘ کے مطالعہ کے بعد ہمیں حیرت و استعجاب لازماً ہوتی ہے کہ ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط جیسے معتدل روش کے حامل مانے جانے والے محقق نے اپنی اس کتاب میں حسان الہند امام احمد رضا قادری برکاتی، ان کے برادرِ اصغر استاذِ زمن شاگردِ داغ مولانا حسن رضا حسنؔ بریلوی، فرزندِ اکبر علامہ حامد رضا قادری برکاتی بریلوی، فرزندِ اصغر علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی اور امام احمد رضا کے دیگر شاگردوں اور متبعین نعت گو شعر ا کی حمدیہ و مناجاتی شاعری کو نہ جانے کن امور کی بنا پر جگہ نہیں دی۔ جب کہ ان شعرا نے جہاں نعتِ رسول ﷺ کے خوب صورت گل بوٹے چمنستانِ نعت میں کھلائے ہیں وہیں حمد و مناجات کی ایسی دل کش لہلہاتی فصلِ بہاری بھی اگائی ہے کہ اُس کی سر سبزی و شادابی سے قلب و روح صیقل و مجلا ہونے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر نشیط صاحب کے جملہ ابواب سے ہم رشتہ اشعار ان شعرا کے دواوین اور مجموعوں سے یقیناً قارئین اپنی تسکین کا سامان فراہم کرسکتے ہیں۔
علامہ حسن رضا حسنؔ بریلوی کے دیوان ’’ ذوقِ نعت ‘‘ کا دروازۂ سخن جن حمدیہ نظموں سے وا ہوتا ہے وہ بالترتیب ۱۱؍ اور ۳۲؍ اشعار پر محیط ہے، اسی طرح اس دیوان میں شامل ایک مناجات ۵۵؍ اشعار پر پھیلی ہوئی ہے۔ جناب حسن رضا بریلوی نے اپنی حمدیہ نظموں میں خداوندِ قدوس کی تعریف و توصیف، صفاتِ خداوندی، اختیارات و تصرفات کو قرآنی مفہوم سے اخذ کرتے ہوئے اشعار کے پیکر میں ڈھالا ہے۔ ان نظموں کی زیریں رَومیں آپ کا احساسِ ندامت اور عاجزی و درماندگی بھی پنہاں ہے۔ فرمانِ خداوندی ولو ان مافی الارض من شجرۃاقلام و البحر یمدہ من بعدہ سبعۃ ابحرما نفدت کلمات اللہ (سورہ لقمان ۲۷) کے مصداق اللہ عزوجل کی حمد و ثنا کا کوئی بھی بندہ حق ادا نہیں کرسکتا اور اس کے مقام و مرتبے کو کوئی بڑے سے بڑا افصح البیان بھی صحیح طور پر بیان نہیں کرسکتا،خدا کی تعریف و توصیف خاک کے پتلے کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی حمدِ باریِ تعالیٰ وہ مقام ہے جہاں عقل و خرد کچھ کام کرسکے ؎
فکر اسفل ہے مری مرتبہ اعلا تیرا
وصف کیا خاک لکھے خاک کا پتلا تیرا
٭٭٭