صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


نصیبوں والیاں
اور دوسری کہانیاں

اسد محمد خاں

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

نَربَدا

ابھی کوئی کہتا تھا کہ ساوَنت اور دلاور ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ Endangered Species میں سے ہیں۔ یہ بھی سنا تھا کہ بالکل ختم ہو گئے، ڈوڈو پرندے کی طرح۔ اور اگر کہیں اُن کا ذکر ملتا ہے تو بس افسانوں کہانیوں میں۔ مارکیٹ اکونومی اور کنزیومر ازم اور احتیاج اور ازلی خود غرضی اور خونی بواسیر اور ریموٹ کنٹرول نے اُنھیں بالآخر نمٹا دیا، اس لیے اُن پر اصرار کرنا anachronism پر اصرار کرنا ہے۔

    چلیے یوں ہی سہی... ذکر کرنے میں تو کچھ نہیں جاتا۔ اس لیے آئیے ذکر کرتے ہیں ساوَنتوں کا۔ ایک کہانی جوڑتے ہیں۔

    تو پہلے اُس کا ڈھانچا کھڑا کر لیا جائے۔ زمانہ، جگہیں، لوگ:

    زمانہ؟ وہی جو مجھے کہانیاں سنانے کے لیے اچھا لگتا ہے __Sur Interregnum __  بلکہ خود فرید خان شیر شاہ سوری کی بادشاہت کے ساڑھے چار برس کہ جب اُس نے سات آٹھ سو کوس لمبی ایک شاہ راہ بنوائی، زمینوں کا اِنصرام درست کیا اور ہند کے شورش زدہ علاقوں میں امن قائم کیا تھا اور اپنی تلوار اور تدبّر سے فتنہ انگیزیوں کا خاتمہ کر کے خلقت کے لیے خدا کی زمین رہنے لائق بنا دی تھی۔

    جگہیں؟ جگہوں میں دریا، پہاڑ، مسطّح میدان، چھوٹی بستیاں، گاؤں، جنھیں جاننا اچّھا لگتا ہے۔

    تو لیجیے، دریا... مگر دریا کو آدمی اور آدمی کو دریا دو سو برس میں اپناتا ہے اور کہیں پان سو برس میں جا کے دوست بناتا ہے۔ میرا اپنا دریا کوئی نہیں، اس لیے لیجیے، میرے پُرکھوں کا اپنایا ہوا دریا نَربَدا۔ (نرَبَ دا میّا!)

    اور پہاڑ؟ سَت پُڑا، یا پھر سموچا وِندھیاچل۔ (جَے وِندھیا!)

    اور بستی؟ مانڈو، جسے فارسی میں مَندو لکھا اور بولا جاتا تھا۔ اور ایک گاؤں، بہت چھوٹا سا گاؤں، تَل وَنڈی (جسے فارسی بولتے ہوے مغل "تَل وَند" پکارتے تھے۔ جیسے پچاس گھروں کا گاؤں نہ ہوا اَلوند، ہلمند ہو گیا۔)۔۔ اقتباس

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول