صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


نقشِ دوام

عبد اللہ جاوید

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

موئن جو ڈارو

میرا ماضی مری ہستی کا موئن جو ڈارو
تُو اسے دیکھ کے ممکن ہے فسردہ بھی نہ ہو
لوگ آتے ہیں یہاں ذوقِ نظارہ لے کر
ذوقِ نظارہ سے ممکن نہیں
انساں کو نجات!
یہ بھی اک تلخ حقیقت ہے مرے دوست کہ آج
یہ کھنڈر
کل جو تھا اک قصرِ نگارین جہاں
آج مرحوم تمنّاؤں کا گورستاں ہے
لوگ آتے ہیں یہاں ذوقِ تجسّس لے کر
اور کچھ دیر نظارہ کر کے
اپنی را ہوں پہ چلے جاتے ہیں
کس کو احساس ہے اِس خاک کے ہر ذرّے میں
دلِ حسّاس کے زخموں کا لہو شامل ہے
ہر طرف پھیلی ہوئی گہری سی تاریکی میں
آرزوؤں کی حنا، جذبوں کی ضو شامل ہے
لوگ کہتے ہیں کہ جو وقت کٹا بیت چکا
بات جو بیت چکی، بیت چکی ختم ہوئی!
دل یہ کہتا ہے مرا زخم ابھی بھر نہ سکا
بات جو بیت چکی، دل میں کھٹکتی ہے ابھی
اور احساس میں کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں
کسی مہتاب سے چہرے کے دل آویز نقوش!!
یہ گزرتا ہوا لمحہ ہے اک آزاد پرند
برق رفتاری سے اُڑتا ہی چلا جاتا ہے
ایک موہوم حقیقت ہے، حقیقت ہی سہی
اک بدلتی ہوئی شے
جس کا نہ ادراک ہوا!
اور گزرا ہوا لمحہ ہے گرفتار قفس
یاد کے پردے پہ ابھرا ہوا اک نقشِ دوام
اک اٹل ٹھوس حقیقت جو نہ بدلے گی کبھی
ایک تاریخ جو ہر لمحۂ ساکت میں ہے قید
’’ وقتِ لافانی! ‘‘
’’ عدم وقت ‘‘ کی حالت کا شعور!
ایسے ہی وقت سے ماضی مرا تشکیل ہوا
اس کو تخریب بھی کہہ سکتے ہیں کہنے والے
گر تو آیا ہے یہاں
ذوقِ نظارہ لے کر
میں بھی تاریخ کے بوسیدہ ورق الٹوں گا
تاکہ کھنڈر سے تجھے شہر کا ادراک ملے
اور مٹّی کے ہر اک ذرّے سے
 دلِ حسّاس کے زخموں کا لہو پھوٹ بہے ۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول