صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


نقشِ خیال

 محفوظ اثرؔ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                                      ٹیکسٹ فائل

غزلیں

تُو اُس جگہ بھی کیوں مجھے پیاسا دکھائی دے

قطرہ بھی جس مقام سے دریا دکھائی دے

جلوہ نما کہاں نہیں وہ حسنِ بے نقاب

ہر آئینے میں عکس اُسی کا دکھائی دے

جس پیکرِ جمال کا سایہ نہیں کوئی

واللہ اُس کی آنکھ میں دنیا دکھائی دے

حسرت سے دُور دُور تلک دیکھتا ہوں میں

شاید کہ دھوپ میں کہیں سایہ دکھائی دے

گھیرا ہے مجھ کو رنج و الم نے کچھ اس طرح

طوفاں کی زد میں جیسے سفینہ دکھائی دے

تقدیر کے لکھے کو پڑھوں کس طرح اثرؔ

ہاتھوں کی ہر لکیر معمہ دکھائی دے



***

وہ شخص زعم میں آگے نکل بھی سکتا ہے

پھر اتفاق ہے رستہ بدل بھی سکتا ہے

ہماری اپنی ہی کوتاہیاں ہیں یہ ورنہ

ہماری راہ کا کانٹا نکل بھی سکتا ہے

شعور مند ہے تاکید کی ضرورت کیا

وہ شخص گرنے سے پہلے سنبھل بھی سکتا ہے

سفیرِ شب کو حقارت سے دیکھنے والے

بوقتِ شام یہ سورج تو ڈھل بھی سکتا ہے

مرے وجود کی تنہائیوں سے ثابت ہے

چراغ تیز ہواؤں میں جل بھی سکتا ہے

بڑا حسین سماں ہے مگر خیال رہے

ذراسی دیر میں موسم بدل بھی سکتا ہے

اُسے نہ لے چلو میلے میں خالی ہاتھ اثرؔ

کھلونا دیکھ کے بچہ مچل بھی سکتا  ہے

***

یہ بھی زبانِ اردو کی مقبولیت تو ہے

لہجے میں آج غیروں کے اپنائیت تو ہے

میں ہوں پرائے دیس کا، اس کا ہے اعتراف

حاصل مگر یہاں کی مجھے شہریت تو ہے

ہم شغلِ بادہ نوشی کے قائل نہیں مگر

دیکھو ہماری آنکھوں میں وہ کیفیت تو ہے

مدت کے بعد کیسے مری یاد آگئی

اچھا تو ہے مزاج میاں خیریت تو ہے

میں کچھ نہیں ہوں پھر بھی جہاں کی نظر میں ہوں

دانشوروں کی صف میں مری شخصیت تو ہے

منزل کا پوچھتے ہیں پتہ مجھ سے راہ گیر

پتھر ہوں راستے کا مگر اہمیت تو ہے

بچے بھلے، بُرے میں کہاں رکھتے ہیں تمیز

جیسا جسے بنا دے اثرؔ تربیت تو ہے

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول